حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اللہ کے رسول ﷺ سے عرض کیا: مجھے کچھ وصیت فرمائیں، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: " غصہ مت کر"۔ (بخاری) حضرت حمید بن عبد الرحمن نبی کریم ﷺ کسی صحابی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا: " ایک شخص نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! مجھے کچھ وصیت فرمائیے، تو آپ ﷺ نے اس سے ارشاد فرمایا: " غصہ مت کر"، وہ صحابی کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ نے یہ بات کہی تو میں سمجھ گیا کہ ساری برائیاں غصہ میں ہیں "۔ (مسند احمد بن حنبل) حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ کہتے ہیں : " میں نے اللہ کے رسول ﷺ سے ایسی چیز کے بارے میں پوچھا جو مجھے اللہ عزوجل کے غضب سے دور رکھے، تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا : " غصہ مت کر"۔ (احمد وابن حبان) غصہ کرنے کی ممانعت کے بارے میں ان کے علاوہ اور بھی بہت احادیث وارد ہیں۔ یہ وصیت ایک عظیم و بلیغ حکمت ہے جس کا صدور ایک ایسے حکیم سے ہوا ہے جس کے دل سے علم و حکمت کے چشمے بہے، تو اس کے تلاش کرنے والوں اور طلبگاروں نے ان سے سیرابی حاصل کی، اور گناہوں اور برائیوں اور ان کے اسباب سے دور رہتے ہوئے انہیں کے مطابق اپنی زندگی گزاری، انہیں کے لئے زندہ رہے، ان کو جمع کرتے، ان میں غور و فکر کرتے، ان کے معانی و مفاہیم و مقاصد کو سمجھتے اور ان کے فوائد و ثمرات سے لطف اندوز ہوتے جو انہیں ان کے اندر غور و فکر کرنے کے حاصل ہوتے تھے۔ چنانچہ ان میں سے کوئی شخص اللہ کے رسول ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کرتا کہ اے اللہ کے رسول ﷺ مجھے کچھ وصیت کیجئے، کیونکہ وہ جانتا تھا کہ آپ کی وصیتیں اىمانى نفوس اور جاگتے دلوں کی بیماریوں کے لئے شفا بخش دوا ہیں۔ چنانچہ اىمانى نفوس ان وصیتوں کو قبول کرتے ہیں، اور انہیں ان میں سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے، اور جاہلی ہٹ دھرمی اور وراثتی بری عادتوں اور طبیعتوں سے چھٹکار پانے میں ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں، یہاں تک کہ پھر یہ نفوس برائی کا حکم دینے والوں سے برائی ملامت کرنے والے ہو جاتے ہیں جو گناہ پر مصر نہیں رہتے اور جلد ہی توبہ کی جانب مائل ہو جاتے ہیں۔