اس بات سے آگاہ کرنا بھی ضروری ہے کہ شادی کے دن لہو و لعب کے بارے میں اللہ کے رسول ﷺکی وصیت کا یہ ہرگز مطلب نهیں ہے کہ حرام و نا جائز امور میں ملوث ہوں۔ انہیں محرمات میں سے ڈھول، باجے بجانا، عورتوں کے حسن و جمال اور عشق و محبت کی داستانیں وقصے پڑھنا بھی ہے، جو اللہ کے نزدیک انتہائی مبغوض ہے، اور آنے والی حدیث بھی اس کی نہی اور حرمت پر دلالت کر رہی ہے، حضرت ابو مالک اشعري رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وه فرماتے ہیں : اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : " لَيَكونَنَّ مِن أُمَّتي أقْوامٌ، يَسْتَحِلُّونَ الحِرَ والحَرِيرَ، والخَمْرَ والمَعازِفَ".[1] " آنے والے وقت میں میری امت کے کچھ ايسے لوگ هو نگے جو اپنے لیےزنا، ریشم، شراب اور معازف کو جائز کر لیں گے"۔ " المعازف" کا معنی ہوتا ہے کھیل تماشہ کرنے اور بجانے والے آلات، اور ہمیں اللہ کا یہ فرمان بھولنا نہیں چاہیے : " وَمِنَ النَّاسِ مَن يَشْتَرِي لَهْوَ الْحَدِيثِ لِيُضِلَّ عَن سَبِيلِ اللَّهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّخِذَهَا هُزُوًا ۚ أُولَٰئكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ" کچھ لوگ کھیل کی باتیں خریدتے ہیں، تاکہ بن سمجھے( لوگوں کو) اللہ کے راستے سے بھٹکا دیں، اور اسے ہنسی ( مذاق) بنا لیں، ان کے لیےذلت و رسوائی کا عذاب ہے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ سے اس آیت کریمہ کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے ارشاد فرمایا : اس کا مطلب گانا گانا اور اسے سننا ہے۔[2] حضرت عبد الرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺنے ارشاد فرمایا :"مجھے دو احمق اور فاجر آوازوں سے منع کیا گیا ہے : ایک خوشی کے وقت بانسری (اورمیوزک) کی آواز سے، دوسری مصیبت کے وقت رونے (نوحہ کرنے) کی آواز سے"۔ [3] تو ایک عارف شخص کیسے اس چیز کو جائز کر سکتا ہے جس سے اللہ کے رسول ﷺنے منع فرمایا ہے، اوراس کی آواز کو احمق اور فاجر کہا ہے، اور اسے اور نوحہ جس کے کرنے والے پر لعنت کی گئی ہے کےمساوی قرار دیا ہے، اور دونوں کو برابراحمق اور فاجر گردانہ ہے۔ [4] جب حضور ﷺنے یہ فرمایا :"ہر وہ چیز جس کے ساتھ انسان کھیلتا ہے وہ باطل ہے، سوائے اس کے کہ آدمی اپنے گھوڑے کو آداب جنگ سکھاۓ، کمان سے تیر اندازی کرے، اور اپنی بیوی سے کھیلے" تو آپ ﷺنے اس سے صاف طور پر یہ بیان فرما دیا کہ میوزک ( اور ڈھول باجوں) کے ذریعے گانا جائز کھیلوں سے نہیں ہے۔ [5] اور ایک دوسری روایت میں حضور ﷺنے ارشاد فرمایا :" ہر وہ چیز جو اللہ عزوجل کے ذکر کے علاوہ ہے وہ لغو اور سہو ہے مگر چار چیزیں: دو نشانوں کے درمیان آدمی کا چلنا، اپنے گھوڑے کو سدھا نا، اپنی بیوی سے کھیلنا اور تیراکی سیکھنا"۔ [6] حدیث شریف میں " دو نشانوں کے درمیان آدمی کا چلنا " کا معنی ہے تیر پھینکنے کے نشان، اور اس کا مطلب ہے دو نشانوں کے درمیان پھینکے ہوئے تیروں کو جمع کرنے کے لیےچلنا، یا جنگ کے لیےدوڑ لگانا۔ " اپنے گھوڑے کو سدھا نا " کا معنی ہے گھوڑے کو تعلیم دینا، جنگ کے لیےاس کو دوڑانا اور تیار کرنا۔ چنانچہ ہر مومن کے لیےحضور ﷺکی مکمل حیات مبارکہ نمونۂ عمل ہے اور آپ بیویوں کے ساتھ حسن سلوک میں شوہروں کے لیےایک بہترین مثال ہیں، چنانچہ آپ ﷺاپنی بیویوں پر سب سے زیادہ لطف و نرمی وشفقت و محبت فرماتے تھے، اور ان کے دلوں کے لیےفرحت و انبساط ومسرت و شادمانی کا باعث تھے، لہذا ہر ایک مسلم شوہر کو بیوی کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آنا چاہیے، اور اس کے ساتھ جائز ہنسی مذاق بھی کرنی چاہیے، اور اس کے دل کو فرحت و انبساط سے بھر دینا چاہیے، تاکہ ان کا گھر مسرت شادمانی سے شاد و آباد رہے۔ [1] یہ حدیث صحیح ہے، بخاری (5590)، ابو داود (4039)، طبرانی " الکبیر" (3417)،بیہقی " السنن الکبریٰ" (10/221) [2]یہ خبر صحیح ہے، حاکم نے اس کی تخریج و تصحیح فرمائی ہے، اور امام ذہبی اورطبری نے اپنی تفسیر (21/39) اسے باقی رکھا ہے۔ [3] یہ حدیث حسن ہے، ترمذی (1011)اوربیہقی نے اپنی" سنن کبری" (4/69) میں اس کی تخریج فرمائی ہے، اور اس کے بہت سے شواہد ہیں۔ [4] ابن قیم کی " اغاثتہ اللهفان" (1/273) [5] یہ حدیث صحیح ہے، ابو داؤد (3496)، نسائی (6/222)، ترمذی (1688)،ابن ماجہ (2811)،احمد (4/146،148) و سنن دارمی (2/205) ۔ [6] یہ حدیث صحیح ہے، نسائی نے " عشرة النساء" (52،53) اور طبرانی نے " المعجم الکبیر والأوسط" (6/269) میں اس کی تخریج کی ہے جیسا کہ " المجمع" میں ہے۔