Search
عورت کی آواز کے ستر ہونے کے متعلق شبہ کا رد اور اس کے ٹیڑھی پسلی سے پیدا ہونے کا مطلب؟
حقیقت کے طور پر لوگوں میں منتشر افواہوں میں سے ایک افواہ یہ بھی ہے کہ اسلام عورت کی آواز کو ستر (عورہ و پردہ) سمجھتا ہے جس کا چھپانا ضروری، لہذا، ہم اس شبہ پر زیادہ کلام نہیں کریں گے؛ کیونکہ اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، بلکہ اس کے برعکس اس افواہ کی تردید میں بے شمار دلائل موجود ہیں.
مثال کے طور پر قرآن مجید ہم سے حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں کی حضرت موسی علیہ السلام سے گفتگو کے بارے میں بیان فرماتا ہے:
﴿وَلَمَّا وَرَدَ مَاءَ مَدْيَنَ وَجَدَ عَلَيْهِ أُمَّةً مِنَ النَّاسِ يَسْقُونَ وَوَجَدَ مِنْ دُونِهِمُ امْرَأتَيْنِ تَذُودَانِ قَالَ مَا خَطْبُكُمَا قَالَتَا لا نَسْقِي حَتَّى يُصْدِرَ الرِّعَاءُ وَأَبُونَا شَيْخٌ كَبِيرٌ﴾ ( القصص23)
اور جب مدین کے پانی پر آیا وہاں لوگوں کے ایک گروہ کو دیکھا کہ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے ہیں، اور ان سے اس طرف دو عورتیں دیکھیں کہ اپنے جانوروں کو روک رہی ہیں، موسیٰ نے فرمایا تم دونوں کا کیا حال ہے، وہ بولیں ہم پانی نہیں پلاتے جب تک سب چرواہے (اپنے ریوڑوں کو پانی) پلاکر (واپس) پھیر نہ لے جائیں اور ہمارے باپ بہت بوڑھے ہیں۔
اور ان میں سے ایک نے جو موسی علیہ السلام سے کہا اس کو قرآن پاک یوں بیان فرماتا ہے:
﴿إِنَّ أَبِي يَدْعُوكَ لِيَجْزِيَكَ أَجْرَ مَا سَقَيْتَ لَنَا﴾ (القصص: 25)
میرے والد آپ کو بلارہے ہیں تاکہ آپ کو اس کام کی مزدوری دیں جواپ نے ہمارے جانوروں کو پانی پلایا ہے۔
پس اگر عورت کی آواز ستر ہے تو حضرت شعیب علیہ السلام کی بیٹیوں نے حضرت موسی علیہ السلام سے کیوں بات کی ؟
مزید یہ کہ عورت کو بولنے سے کیسے روکا جاسکتا ہے جبکہ اسلام نے اسے خرید و فروخت و نصیحت کرنے اور بھلائی کا حکم دینے و برائی سے روکنے کی اجازت دی ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے:
﴿وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ﴾ (التوبہ:71)
ترجمہ: اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔(ترجمہ كنزالايمان)
نیز مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جب مہر متعین کرنا چاہا تو بیچ مسجد میں ایک عورت کھڑی ہوئی اور انہیں قرآن پاک کی آیت کی اتباع کرنے کو کہا اور بولی: آپ کیسے مہر متعین کرنا چاہتے ہیں جبکہ اللہ تعالی فرماتا ہے :
﴿ وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا ۚ ﴾ (النساء:20)
( اور اگر تم ایک بیوی کو دوسری بیوی سے بدلنا چاہتے ہو) اور تم ان میں سے ایک کو [مہر میں ] ڈھیرے مال دے چکے تو اس میں سے کچھ (بھی واپس) نہ لو۔
تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا مشہور قول فرمایا: عورت نے صحیح کہا اور عمر سے غلطی ہوئی!
اسلام میں عورت کے مقام کے بارے میں یہاں ایک بہت ہی عمدہ حدیث پاک سنا کر ہم اپنی بات ختم کرتے ہیں، اور وہ یہ ہے:
کہ حضرت ام سلمہ ہند بنت ابی امیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب رسول اللہ ﷺ ہجرت کی غرض سے نکلے، تو رسول اللہ ﷺ کی بیٹی زینب رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر ابو العاص بن الربيع جو ابھی تک مشرک تھے سے اجازت طلب کی کہ وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جائیں گی، ابو العاص نے انہیں اجازت دے دی، وہ آپ ﷺ کے پاس آگئیں، پھر ابو العاص بھی مدینے آگئے اور زینب رضی اللہ عنہا کی طرف پیغام بھیجا کہ اپنے والد سے میرے لیے امان طلب کرو، وہ باہر نکلیں اور حجر ے کے دروازے سے سر نکال کر بولیں جبکہ اللہ رسول اللہ ﷺ لوگوں کو صبح کی نماز پڑھا رہے تھے، کہنے لگیں: اے لوگو! میں زینب بنت رسول اللہ ﷺ ہوں، میں نے ابو العاص کو پناہ دے دی ہے، جب رسول اللہ ﷺ نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا: لوگو! جب تک تم نے یہ آواز نہیں سنی مجھے ابو العاص کے بارے میں علم نہیں تھا، اور مسلمانوں کا عام آدمی بھی پناہ دے سکتا ہے۔
اسلام نے عورت کو جو بلند مقام دیا ہے اور اسے جو اعزاز بخشا ہے اس سے کون نا واقف ہے سوائے ان بعض جاہلوں کو جو اسلام پر الزام لگاتے ہوئے یہ افواہ پھیلاتے ہیں کہ اسلام عورتوں کی توہین کرتا ہے انہیں عزت نہیں دیتا، لہذا ایسے لوگوں کو تو عورتوں کے بارے میں اپنے شرمناک نظریات سے شرمندہ ہو کر کر زمین میں دفن ہو جانا چاہیے جنہوں نے عورت کی عزت کو پامال کر رکھا ہے اور اس کے جسم کو بیچا اور خریدا جانے والا تجارت کا سامان بنا دیا ہے، یقیناً مغربی ممالک میں عورت کے حالات پر غور کرنے والے کو اس صنف نازک پر ترس آتا ہے کیونکہ ہوس پرستوں نے اسے صرف جنسی استحصال وخواہش پوری کرنے کا ذریعہ بنا رکھا ہے، آزادی کے بہانے اسے عریانیت اور آرٹ و فنکاری کے نام پر جسم فروشی کی طرف ڈھکیل دیا ہے، پس اس میں عورت کی کیا عزت ہے؟ کیا احترام ہے؟
عورت کے بارے میں یہاں پر ایک اورمن گھڑت اور شبہ باطلہ ہے جو تمام شبہات کی طرح بیان حق کے بعد ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے، وہ باطل شبہ یہ ہے کہ : اسلام سمجھتا ہے کہ عورت ٹیڑھی پسلی سے پیدا کی گئی ہے۔
لہذا آئیے اس کی حقیقت کو جاننے کے لیے ایک حدیث پاک ملاحظہ کرتے ہیں، چنانچہ امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مَن كانَ يُؤْمِنُ باللَّهِ واليَومِ الآخِرِ فلا يُؤْذِي جارَهُ، واسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا، فإنَّهُنَّ خُلِقْنَ مِن ضِلَعٍ، وإنَّ أعْوَجَ شيءٍ في الضِّلَعِ أعْلاهُ، فإنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهُ كَسَرْتَهُ، وإنْ تَرَكْتَهُ لَمْ يَزَلْ أعْوَجَ، فاسْتَوْصُوا بالنِّساءِ خَيْرًا.
(جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے، اور عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرو، کیونکہ انہیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ سب سے اوپر والا حصہ ہوتا ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو تم اسے توڑ دو گے اور اگر اسے اس کے حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، لہذا ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔)
ہمیں اس حدیث شریف سے کیا تعلیم ملتی ہے؟
اول: نبی کریم ﷺ نے یہ نہیں کہا کہ عورت کو ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کا گمان ہے، بلکہ یہ بتایا ہے کہ وہ پسلی سے پیدا ہوئی ہے([1]) ۔ اور یہ ایک امر غیبی ہے جس پر اللہ تبارک و تعالی نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو مطلع کیا ہے جیسا کہ اس کے علاوہ بہت سے دوسرے امور غیبیہ پر مطلع کیا ہے جن پر ہر مومن ایمان رکھتا ہے، لہذا اس میں عورت کی کوئی توہین نہیں ہے، مثال کے طور پر جب خدا تعالی نے ہمیں یہ بتایا کہ اس نے انسان کو مٹی سے پیدا کیا ہے، تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اسلام انسان کی توہین کرتا ہے؟ بالکل نہیں، بلکہ یہ محض ایک حقیقت غیبیہ کی خبر ہے جسے اللہ تعالی کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور ہمارا کام اس پر صرف یقین رکھنا ہے۔
دوم: نبی کریم ﷺ کا اس حقیقت کے بارے میں آگاہ کرنا کہ عورت کو آدم علیہ السلام کی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں اس کی صراحت کی گئی ہے، چنانچہ اس میں ہے:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾(النساء :1)
ترجمہ : اے لوگو ! اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی میں سے اس کا جوڑا بنایا. (ترجمہ: کنز الایمان)
تو اس خبر سے ہمیں مرد اور عورت کے مابین رشتہ کی حقیقت کا علم ہوتا ہے اور یہ پتہ چلتا ہے کہ ان کے درمیان کا یہ رشتہ رشتہ تکاملی ہے کیونکہ عورت مرد سے ہے اور مرد عورت سے ہے جیسا اللہ سبحانہ وتعالی نے ارشاد فرمایا:
﴿ بَعْضُكُم مِّن بَعْضٍ ﴾(آل عمران: 195)
ترجمہ: تم آپس میں ایک ہو. (ترجمہ:کنزالایمان)
نیز یہ حدیث پاک مردوں کو عورتوں کے ساتھ حسن سلوک کرنے، ان کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے اور ان کے ساتھ صبر وتحمل سے کام لینے کی وصیت کے تناظر میں وارد ہوئی ہے، کیونکہ عورت فطرتی طور پر جذباتی ہوتی ہے۔
چنانچہ ہم یہاں آیت کریمہ:
﴿يَا أَيُّهَا النَّاسُ اتَّقُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ وَخَلَقَ مِنْهَا زَوْجَهَا ﴾(النساء :1)
کی تفسیر میں شیخ شعراوی رحمہ اللہ کا بہت ہی عمدہ کلام ذکر کرنا چاہیں گے، چنانچہ شیخ شعراوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
حق تعالى نے ارشاد فرمایا : وَجَعَلَ مِنْهَا (اور اس نے اس سے بنایا) پس اگر عورت پسلی سے پیدا ہوئی ہو تو پھر لفظ "من" تبعیضیہ ہے اور اگر آدم کی طرح پیدا ہوئی ہو تو لفظ "من" بیانیہ ہے، یعنی اسی کی جنس سے اور اسی جیسا اسے بنایا، پس یہ ایسے ہی ہوگا جیسا کہ اللہ تعالی نے اس آیت میں ارشاد فرمایا: ﴿هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ﴾(وہی ہے جس نے اَن پڑھوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا) یعنی انہیں کی جنس بشری سے رسول بھیجا....... اور ایک دوسری جگہ شیخ شعراوی نے اپنے ایک تفسیر کے درس میں ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالی ہر چیز کو بنانے سے پہلے اسے اور اس کے ذریعہ انجام دیے جانے والے کام کو اچھی طرح سے جانتا ہے، لہذا اللہ تعالی ہر چیز کو ایسی خصوصیات و اوصاف کے ساتھ بناتا ہے جو اس کے مقصد اور کام کو انجام دے سکیں، کبھی کبھی کچھ چیزوں کو دیکھ کر آپ کے ذہن میں یہ خیال آتا ہوگا کہ یہ چیزیں کسی کام کی نہیں ہیں، یا یہ کہ اگر فلاں چیز کو فلاں طریقہ سے بنایا جاتا تو اچھا ہوتا، لیکن معاملہ ایسا نہیں ہے، چنانچہ مروی ہے کہ ایک شخص مخلوق خدا میں غور و فکر کرنے کے بعد بولا: اس سے اچھی و بہتر کوئی تخلیق اور ایجاد ہو ہی نہیں سکتی ہے، نیز ایک لوہار نے لوہے کی سیدھی چھڑ لے کر اسے ٹیڑھا کر دیا، یہ دیکھ کر اس کے بیٹے نے پوچھا، سیدھی چھڑ کو موڑ کر کیوں ٹیڑھا کر دیا، اسے سیدھا کیوں نہیں رہنے دیتے؟ باپ نے جواب دیا: یہ چھڑ مڑ کر ہی اپنا کام انجام دے سکتی ہے اس کے سیدھا رہنے سے اس کا کام نہیں ہو سکتا ہے، مثال کے طور پر ہک، درانتیاں، ہنسیے اور درختوں پر سے پھل توڑنے کے آلات اگر سیدھے ہوتے تو وہ اپنا کام انجام نہیں دے سکتے تھے، اب اس کی روشنی میں ہم اس حدیث پاک کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں جس میں نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے کہ: " انہیں پسلی سے پیدا کیا گیا ہے اور پسلی میں سب سے ٹیڑھا حصہ سب سے اوپر والا حصہ ہوتا ہے، اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کرو گے تو اسے توڑ دو گے اور اگر اسے اس کے حال پر رہنے دو گے تو وہ ٹیڑھی رہے گی، لہذا ان کے ساتھ حسن سلوک کرو۔"، اگر آپ اپنے سینے کی پسلیوں میں غور کریں گے تو آپ کو پتہ چلے گا کہ یہ پسلیاں آپ کے دل اور پھیپھڑوں کی حفاظت کرتی ہیں، اگر یہ ٹیڑھی نہ ہوں تو یہ آپ کے دو اہم عضووں - دل اور پھیپھڑوں- کی حفاظت نہیں کر پائیں گی، لہذا ان کا ٹیڑھا پن شفقت وہمدردی اور تحفظ ہے، اور اسی طرح زندگی میں عورت کی کارکردگی ہے، مثال کے طور پر، وہ دوران حمل اپنے اس بچے کے ساتھ بڑی نرمی سے کام لیتی ہے اور اس کی حفاظت کرتی ہے، اور جب وہ اسے جنم دیتی ہے تو اس پر اور بھی زیادہ مہربان و رحم دل ہو جاتی ہے۔
لہذا نبی کریم ﷺ کا عورتوں کی یہ صفت وحقیقت بیان کرنا عورتوں کے حق میں کوئی گالی نہیں ہے اور نہ ہی اس میں ان کی کوئی توہین و تذلیل ہے، کیونکہ عورت کی فطرت میں اس طرح کا ٹیڑھا پن اس کی زندگی کے مقصد کو پورا کرنے کے لیے ضروری چیز ہے، اسی لیے آپ دیکھتے ہیں کہ عورت کے اندر ہمدردی و شفقت کا پہلو اس کی عقل کے پہلو پر غالب ہوتا ہے، کیونکہ عورت کو اس کی زندگی میں اسی نوعیت وفطرت کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے، جبکہ مردوں کے اندر عقلی پہلو ہمدردی و شفقت کے پہلو پر غالب رہتا ہے تاکہ وہ زندگی میں اپنا مقصد انجام دے سکیں، کیونکہ ان سے اعبائے امور زندگی متعلق رہتے ہیں، چنانچہ اللہ تبارک وتعالی نے ہر ایک چیز کو ایک خاص کام کے لیے پیدا کیا ہے، اور ہر ایک کا اپنا ایک کام ہے، اور جس کو جس طرح پیدا کیا ہے وہی اس کے لیے سب سے بہتر ہے اگرچہ بظاہر اس میں کوئی عیب نظر آئے۔
()اس لفظ" ٹیڑھی پسلی"کے ساتھ بھی ایک روایت ملتی ہے، چنانچہ طبرانی کی" المعجم الأوسط" میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"إِنَّمَا خُلِقَتِ الْمَرْأَةُ مِنْ ضِلَعٍ أَعْوَجَ، فَلَنْ تُصَاحِبَهَا إِلا وَفِيهَا عِوَجٌ، فَإِنْ ذَهَبْتَ تُقِيمُهَا كَسَرْتَهَا، وكَسْرُكَ لَهَا طَلاقُهَا"۔
ترجمہ:"عورت کو ٹیڑھی پسلی سے پیدا کیا گیا ہے، لہذا جب تم اس کے ساتھ رہو گے تو ٹیڑھا پن دیکھو گے، پس اگر تم اسے سیدھا کرنے کی کوشش کروگے تو توڑ دوگے اور اس کا توڑنا طلاق ہے"۔( المعجم الأوسط للطبراني، حديث نمبر: 283)
لہذا لفظ " ٹیڑھی" کو اس روایت کی بنیاد پر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی ہرگز اس میں عورت کی توہین وتذليل نہیں ہے، بلکہ اس سے مردوں کو اس بات کی وصیت کرنا مقصود ہے کہ وہ عورتیں کہ ساتھ حسن سلوک، لطف ونرم مزاجی اور صبر وتحمل سے پیش آئیں، اور ان کی تھوڑی سی کسی بات سے پریشان ہو کرطلاق دینے میں عجلت سے کام نہ لیں۔