1. مضامين
  2. شبهات وجوابات پہلا حصہ عورت اسلام كى نظر مىں
  3. غیر مسلم مرد سے مسلمان عورت کی شادی کی حرمت وممانعت پر شبہ اور اس کا رد

غیر مسلم مرد سے مسلمان عورت کی شادی کی حرمت وممانعت پر شبہ اور اس کا رد

مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : हिन्दी

اسلام مسلمان مرد کو کتابیہ (یعنی عیسائی یا یہودی ) عورت سے شادی کرنے کی اجازت دیتا ہے، جبکہ مسلمان عورت کو  ایسا کرنے (یعنی عیسائی یا یہودی مرد سے شادی کرنے ) سے منع کرتا ہے، ایسا کیوں ہے؟

یہ ایک اچھا اور منطقی سوال ہے، لیکن اس کا جواب دینے سے پہلے ہم اس بات کی تاکید کرنا چاہتے ہیں کہ اسلام نے مسلمان عورت کو غیر مسلم مرد سے شادی کرنے سے منع فرمایا ہے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ﴾(البقرة: 221)

ترجمہ: اور (اے مسلمانوں! اپنی عورتوں کو) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو۔ (کنز الایمان)

غیر مسلم مرد سے مسلمان عورت کی شادی کی ممانعت و حرمت در اصل اس حقیقت پر مبنی ہے کہ عام طور پر عورت اپنے شوہر کی اتباع کرتی ہے، اسی طرح عام طور پرشوہر کا اپنی بیوی پر اس سے کئ زیادہ اثر پڑتا ہے جتنا کہ ایک بیوی کا اس کے شوہر پر پڑتا ہے، اور در حقیقت اسلام ایک ایسا دین ہے جس کے بہت سے اہداف ومقاصد ہیں جن میں سے دو مندرجہ ذیل مقصد بھی ہیں:

پہلا مقصد: وہ یہ ہے کہ لوگ واضح طور اس سے متعارف ہوں جس سے انہیں یہ یقین ہو جائے کہ وہی ایک سچا دین ہے، چنانچہ اسی لیے اس نے مسلمان مرد کو غیر مسلم عورت سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے بشرطیکہ وہ اہل کتاب سے ہو یعنی یہودی یا عیسائی ہو، کیونکہ وہ (یہودی اور عیسائی عورت ) کم از کم اللہ اور وحی پر تو ایمان رکھتی ہے اگرچہ اس عقیدے وایمان کی نوعیت کیسی ہی ہو، لہذا دوسروں کی بہ نسبت وہ اسلام کو آسانی سے سمجھ سکتی ہے، خاص طور پر جب اس کی شادی ایک ایسے سچے پکے مسلمان سے ہو جائے جو اپنے اقوال وافعال میں اسلامی تعلیمات کا پابند ہو، کیونکہ جب وہ اس کے اچھے اسلامی اخلاق و آداب کو دیکھے گی اور اپنے ساتھ اس کے حسن سلوک کا معاینہ کرے گی تو یہ اس کے اسلام میں دخول کا سبب ہو سکتا ہے، تاہم اگر وہ اپنے مذہب پر قائم رہنا چاہے تو اسے اس کا پورا حق حاصل ہے، اور کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ اسے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کرے، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:

﴿لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ﴾ (البقرہ: 256)

ترجمہ: دین میں کوئی زبردستی نہیں۔

دوسرا مقصد: یہ ہے کہ اسلام اپنے متبعین وپیروکاروں کو اپنے آپ سے وابستہ اور منسلک رکھنا چاہتا ہے، اسی وجہ سے وہ انہیں ایسی چیز سے دور رکھتا جو بھی ان کے ایمان پر منفی اثر ڈالتی ہے، اس طرح کی چیزوں کو دین میں فتنہ(آزمائش) کہا جاتا ہے، چنانچہ اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتا ہے:

﴿ وَالْفِتْنَةُ أَكْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ﴾ (البقرہ: 217)

ترجمہ: اور فتنہ(وفساد) قتل سے (بھی) بڑھ کر ہے۔

در حقیقت اس قسم کے فتنے کئی طرح کے ہو سکتے ہیں مثال کے طور پر کسی مسلمان کو اس کا عقیدہ بدلنے کے لیے تکلیف دیا جانا، اور ہماری والی صورت بھی ہو سکتی ہے یعنی مسلمان عورت کی غیر مسلم مرد سے شادی کروا دینا، اب سوال یہ ہے کہ غیر مسلم مرد سے مسلمان عورت کی شادی کیوں منع ہے؟ تو اس کا جواب وہی ہے جو اوپر بیان ہو چکا کہ عام طور پر شوہر کا اثر اس کی بیوی پر زیادہ پڑتا ہے، اور بہت ممکن ہے کہ اس غیر مسلم شوہر کا اس کی مسلمان بیوی پر منفی اثر  پڑ جائے جس کی وجہ سے  اس کی مسلمان بیوی اپنا مذہب (اسلام) چھوڑ دے یا کم از کم وہ اسلامی تعلیمات واحکام کی پابندی نہ کر سکے، اور ایسا سب کچھ اسلام اپنے پیروکاروں کے لیے کبھی نہیں چاہتا، بلکہ اسلام تو انہیں ہمیشہ ایسا مناسب ماحول دینے کی کوشش کرتا ہے جس میں وہ اس کی تعلیمات پر عمل کر سکیں، اسی لیے اسلام نے مسلمان عورت کو مسلمان کے ساتھ ساتھ اچھے شخص کا انتخاب کرنے کی بھی تاکید فرمائی ہے، اور اسے بات کی تلقین کی ہے وہ  ایسے شخص کا انتخاب کرے جو پابند شریعت ہو اور ایسے شخص کو قبول نہ کرے جو تعلیمات شریعت میں تساہل برتتا ہو، یہ سب اس وجہ سے ہے کہ مسلمان عورت اپنے مذہب اور اس کی تعلیمات پر مضبوطی قائم رہے اور ہر منفی اثر سے دور رہے۔

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day