1. مضامين
  2. شبهات وجوابات پہلا حصہ عورت اسلام كى نظر مىں
  3. اسلام اور دیگر مذاہب میں تعدد ازدواج - جمال محمد زکی اسلام میں تعدد ازدواج کے متعلق شکوک و شبہات کا رد

اسلام اور دیگر مذاہب میں تعدد ازدواج - جمال محمد زکی اسلام میں تعدد ازدواج کے متعلق شکوک و شبہات کا رد

مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : हिन्दी

اسلام دشمن وبیمار دل لوگ اور ان کے پیروکار تعدد ازدواج کے سلسلے میں نازل ہونے والی قرآن مجید کی آیت یعنی:

﴿ فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُبَاعَ﴾([1]) 

ترجمہ: تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار(ترجمہ کنز الایمان)

، میں طعن وتشنیع کرتے ہیں، چنانچہ کہتے ہیں کہ قرآن پاک نے عورت اور اس کے حقوق کو نظر انداز کیا ہے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں تھا۔

اسلام میں تعدد ازدواج اور اس کے مقاصد کو واضح کرنے سے پہلے ہم ایک اہم سوال کا جواب دینا چاہتے ہیں وہ یہ کہ: کیا اسلام نے تعدد ازدواج کی ایجاد کی یا پھر یہ رواج پہلے ہی سے موجود تھا؟ چنانچہ تاریخ کا مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ تعدد ازدواج کا رواج اسلام سے بہت پہلے سے ہی زمانہ قدیم سے ہر زمانہ اور ہر معاشرے کے لوگوں کے اندر  موجود رہا ہے۔

 تورات اور یہودیت میں تعدد ازدواج: تورات نے یہودیوں کو بیک وقت ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دی ہے اور بیویوں کی تعداد کی بھی کوئی حد متعین نہیں کی ہے، لیکن ہاں تلمود نے چار بیویوں کی حد متعین کی بشرطیکہ شوہر انہیں نان و نفقہ دینے پر قادر ہو، چنانچہ تلمود کہتا ہے: مرد کو (بیک وقت) چار سے زیادہ بیویاں رکھناجائز نہیں ہے، جیسا کہ حضرت یعقوب نے کیا، جبکہ شوہر نے پہلی شادی کے وقت اس کی قسم نہ کھائی ہو۔ اگرچہ ایسی تعداد کے لیے نان ونفقہ پر قدرت شرط ہے۔([2])  

سفر تکوین میں ہے: حضرت یعقوب علیہ السلام نے : '(31) لیاہ .. (24) راحیل .. (25) راحیل کی باندی بلہا … (26) اور لیاہ کی کنیز زلفہ..طط  سے شادی کی۔ 

گنتی کی کتاب میں ہے:  حضرت داود علیہ السلام کی متعدد بیویاں اور بہت سی لونڈیاں تھیں، اسی طرح ان کے بیٹے سلیمان علیہ السلام کی بھی، چنانچہ سلیمان علیہ السلام کی ایک ہزار سے زائد بیویاں تھیں، اسی طرح ایک یہودی بادشاہ ابیا کی بھی چودہ بیویاں تھیں.. 

انجیل اور عیسائیت میں تعدد ازدواج: ابتدا میں عیسائیت نے بھی یہودیت کی طرح تعدد ازدواج کا اقرار کیا اور سترہویں صدی عیسوی تک پادریوں نے بھی اس میں کوئی تدخل نہیں کیا، لیکن پھر اسی سترہویں صدی میں اس کی ممانعت پر کلام شروع ہوا اور پھر آخر کار  1750 میں اس ممانعت کی توثیق ہو گئی، عیسائی پادریوں کا یہ کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے وہ دعوت وتبلیغ کے لیے فارغ البال ہو جائیں گے اور خواتین اور ان کی پریشانیاں ان کے لیے چرچ اور اس کے پیروکاروں کی دیکھ بھال کرنے میں رکاوٹ نہیں بنیں گی۔

یہ ممانعت آہستہ آہستہ پروان چڑھی، پہلے تو یہ (تعدد ازدواج) صرف پادریوں پر ہی حرام ہوئی، پھر اس کے بعد پادریوں کے علاوہ لوگوں کی صرف پہلی شادی ہی مذہبی رسومات کے طور پر کی جانے لگی، لہذا اگر کوئی مسیحی شخص دوسری شادی کرنا چاہتا تو وہ مذہبی رسومات کے بغیر ہی کرتا، پھر اس کے بعد ایک سے زیادہ شادی کرنا ہی منع کر دیا گیا، تاہم لونڈی رکھنا جائز تھا لیکن پھر 970 عیسوی میں پادری اعظم ابرام سوربانی کے حکم سے لونڈی رکھنے کو بھی منع کر دیا گیا۔ (

اس طرح یہ ممانعت انسان کی موضوع تشریع سے آئی ہے نا کہ آسمانی تشریع سے، پھر انہوں نے رہبانیت کا پروپیگنڈا شروع کیا جو صرف مسیحیت میں ہی تھا،  وہ رہبانیت کو صلاح نفس، تقدس، ایمان میں ترقی اور  چرچ کے درجات میں اضافے کا سبب سمجھتے تھے، ان کے نزدیک شہوت ایک عیب اور گھناؤنی چیز تھی، چنانچہ عدم زواج کے دعوے کی دلیل میں بولس کہتا تھا: (32) میں چاہتا ہوں کہ تم بے فکر رہو، کیونکہ غیر شادی شدہ ہمیشہ اپنے پروردگار کے معاملات میں منہمک رہتا ہے (33) اور اس کا مقصد خدا کو راضی کرنا رہتا ہے، لیکن شادی شدہ انسان دنیاوی معاملات میں فکرمند و منہمک رہتا ہے اور اس کا مقصد اپنی بیوی کو راضی کرنا رہتا ہے (34) کیونکہ اس کی فکروتوجہ تقسیم ہو جاتی ہے، اسی طرح غیر شادی شدہ اور کنواری عورتیں اپنے رب کے امور کے بارے میں فکرمند و منہمک رہتی ہیں اور ان کا مقصد جسمانی وروحانی اعتبار سے مقدس ہونا رہتا ہے۔ (

چنانچہ اس طرح سے انہوں نے احکامات شریعت کو توڑ مروڑ دیا چنانچہ ان کے نظریات ومبادی تباہ کن و غلط ثابت ہوئے جنہیں عقل سلیم اور پاک فطرت کبھی قبول نہیں کرے سکتی... چنانچہ جائز شادی کے بغیر اولاد اور انسانی نسل کہاں سے آئے گی؟ الفت ومحبت، مودت ورحمت اور ذہنی سکون کہاں سے حاصل ہوگا؟ اللہ رب العزت نے انسان میں جو فطری خواہش رکھی ہے وہ کہاں سے بجھے گی اور اس کے نکلنے کا صحیح طریقہ کیا ہوگا؟ ہم وہ ازدواجی گھر کہاں سے لائیں گے جو فحاشی، عشق بازی اور ناجائز تعلقات میں پڑنے سے بچانے کا ایک محفوظ قلعہ ہے؟ مرد اور عورت کے اندر جو فطری پدری اور مادری جذبات ہیں وہ کہاں جائیں گے؟ ...

اسلام میں تعدد ازدواج

اللہ سبحانہ وتعالی نے بنی آدم کے اعزاز وتکریم، ان پر اپنی نعمتوں کی تکمیل، انہیں جسمانی وروحانی طور پر گندگی، بدکاری و فحاشی سے پاک کرنے اور ان کی عفت وپاکیزگی، راحت وسکون، الفت ومحبت اور کمال و استحکام میں ترقی و اضافے کے لیے شادی ونکاح کو مشروع کیا، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَاللَّهُ جَعَلَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا﴾

ترجمہ: اور اللہ نے تمہارے لیے تمہاری جنس سے عورتیں (بیویاں) بنائیں (کنز الایمان)

چنانچہ شادی مرد اور عورت کے مابین سب سے زیادہ مضبوط ،گہرا، مستقل اور وسیع تر رشتہ ہے، یہ مرد وعورت کے ہر طرح کے تعلقات کو شامل ہے، چنانچہ اللہ سبحانہ وتعالی ارشاد فرماتا ہے:

﴿هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا﴾

 ترجمہ: وہی ہے جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا (بیوی کو)  بنایا تاکہ وہ اس سے سکون حاصل کرے۔

چنانچہ یہ انسان اور اس کی تکوین میں اس کے وظیفہ زوجیت کی حقیقت کا اسلامی نظریہ ہے، اور یہ ایک پختہ وسچا نظریہ ہے۔

لہذا اسلام نے لوگوں کو رہبانیت کی دعوت نہیں دی، حدیث پاک میں ہے کہ : بے شک اللہ تعالی نے ہمیں رہبانیت کے بجائے سچا مذہب عطا فرما دیا۔([15])  اور اسلام جن چیزوں کو مشروع قرار دیا ہے ان میں سے ایک تعدد ازدواج بھی ہے جبکہ اس کی ضرورت پیش آئے، چنانچہ اس کے بارے میں ہم چند نقاط میں بات کرنا چاہیں گے:

اول: اسلام نے تعدد ازدواج کا نظام ایجاد نہیں کیا ہے بلکہ جب اسلام آیا تو یہ نظام ہر معاشرے میں مشہور ومعروف تھا، اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں اہل عرب بنا کسی قید وشرط کے اس تعدد ازدواج کے نظام پر کثرت سے عمل کرتے تھے۔

دوم: چونکہ اسلام لوگوں کے معاملات اور ان کے احوال کو منظم کرنے کے لئے آیا ہے، لہذا تعدد ازدواج کے اس مطلق العنان قانون کو منظم کرنے، اس کے نقصانات کو روکنے، اسے مقید ومشروط کر کے اسے شائستہ ومہذب کرنے کے لیے اسلام کا اس  میں مداخلت کرنا ضروری تاکہ سب کے حقوق کی رعایت ہو، چنانچہ اللہ تبارک وتعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تُقْسِطُوا فِي الْيَتَامَى فَانْكِحُوا مَا طَابَ لَكُمْ مِنَ النِّسَاءِ مَثْنَى وَثُلاثَ وَرُباعَ﴾

ترجمہ: اور اگر تمہیں اندیشہ ہو کہ یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کرو گے تو نکاح میں لاؤ جو عورتیں تمہیں خوش آئیں دو دو اور تین تین اور چار چار. (ترجمہ کنز الایمان)

 اس آیت کے نزول کے بعد پیغمبر اکرم ﷺ نے چار سے زیادہ بیویاں رکھنے والے افراد کو حکم دیا کہ وہ صرف چار رکھیں اور باقی دوسری بیویوں کو چھوڑ دیں، چنانچہ امام بخاری نے اپنی کتاب الادب المفرد میں روایت کیا ہے کہ غیلان بن سلمہ ثقفی نے جب اسلام قبول کیا تو ان کی دس بیویاں تھیں، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا: " ان میں سے چار کو چن لو۔" ( ([19])  

چنانچہ اس طرح سے اسلام نے تعدد ازدواج کے قانون میں صرف چار بیویوں کی حد متعین کر کے اسے مقید فرمایا اور مہذب و شائستہ بنایا جبکہ اسلام سے پہلے اس میں کوئی حد متعین نہیں تھی، لہذا جتنی چاہتے اتنی بیویاں رکھتے تھے۔

سوم: نیز اسلام نے کثرت ازدواج کے اس قانون کو مرد کی خواہش نفسانی پر مطلق نہیں چھوڑا بلکہ اسے عدل وانصاف کی قید کے ساتھ بھی مقید کیا، لہذا اگر وہ عدل وانصاف نہیں کر سکتا تو اس کے لیے تعدد ازدواج جائز نہیں ہے، اور اس کے لیے اسلام نے دو طرح کا عدل وانصاف کا تذکرہ دیا ہے:

پہلی قسم: عدل واجب ومطلوب: اس کا مطلب یہ ہے کہ سلوک، نفقہ، معاشرت، قربت اور دیگر تمام ظاہری امور میں عدل وانصاف سے کام لینا اس طور پر کہ کسی ایک بیوی کی بھی ان چیزوں میں حق تلفی نہ ہو اور نہ ہی کسی کو کسی پر ترجیح وفوقیت دے، اس کا ذکر قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیت میں ہے، چنانچہ فرمان الہی ہے:

﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾

ترجمہ: اگر تمہیں خوف ہے کہ تم انصاف نہیں کرو گے تو (صرف) ایک.

اور رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: " جس كي دو بيوياں ہوں اور وہ ان میں عدل وانصاف نہ کرےتو وہ قیامت کے دن ایسی حالت میں آئے گا کہ اس کا آدھا دھڑ ساقط اور مفلوج ہوگا۔"

نیز امام مسلم  عبد اللہ بن عمرو بن العاص سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: " انصاف کرنے والے اللہ کے یہاں رحمٰن کے دائیں جانب نور کے منبروں پر  ہوں گے،  اور اللہ کے دونوں ہاتھ یمین ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے فیصلوں، اپنے اہل و عیال اور اپنی رعایا میں عدل وانصاف کرتے ہیں۔"(

دوسری قسم: جذبات میں عدل وانصاف: قلبی لگاؤ وجذبات اور احساسات میں عدل وانصاف کرنا، لیکن اس طرح کا عدل وانصاف انسانی ارادہ سے باہر ہے اور وہ اس پر قادر نہیں ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ اس کا مطالب بھی نہیں ہے، اسی کا قرآن مجید کی اس آیت کریمہ نے تذکرہ فرمایا ہے:

﴿وَلَن تَسْتَطِيعُوا أَن تَعْدِلُوا بَيْنَ النِّسَاءِ وَلَوْ حَرَصْتُمْ ۖ فَلَا تَمِيلُوا كُلَّ الْمَيْلِ فَتَذَرُوهَا كَالْمُعَلَّقَةِ﴾(

ترجمہ: اور تم سے ہرگز نہ ہوسکے گا کہ عورتوں ( یعنی اپنی بیویوں) کو (دلی لگاؤ و محبت میں) برابر رکھو خواہ تم کتنی ہی (اس کی) حرص کرو، تو یہ تو نہ ہو کہ ایک طرف پورا جھک جاؤ کہ دوسری کو ادھر میں لٹکتی چھوڑ دو ۔

تاہم اس قسم کا مطلب کسی بھی بیوی پر ظلم کرنا نہیں ہے، لہذا کسی کا دل اگر کسی ایک بیوی کی طرف زیادہ مائل ہے تو کم از کم دوسری کے لیے بھی دل میں کچھ جگہ ہونی چاہئے، لہذا ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ ایک ہی کی طرف پوری طرح سے مائل ہو جائے اور دوسری کو بالکل چھوڑ دے  جیسے کہ وہ بے کار ہو یا شادی شدہ ہی نہ ہو، چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم ﷺ کی اہلیہ محترمہ تھیں، نبی ﷺ کے دل میں آپ کا ایک خاص مقام ومرتبہ تھا اور دوسری بیویوں کی بہ نسبت نبی کریم ﷺ کا دلی رجحان ومیلان  آپ کی طرف زیادہ تھا، چنانچہ آپ ﷺ(ازواج مطہرات کے درمیان باری مقرر کرکے) ارشاد فرماتے تھے:" اے اللہ! یہ میری تقسیم ہے جس پر میں قدرت رکھتاہوں، لیکن جس کی قدرت تو رکھتا ہے، میں نہیں رکھتا، اس کے بارے میں مجھے ملامت نہ کرنا۔" (

لہذا دوسری آیت سے پہلی آیت میں مذکور تعدد ازدواج کی ممانعت وحرمت نہیں ہوتی ہے؛ کیونکہ پہلی والی آیت میں جو عدل مطلوب ہے وہ عدل مادی و ظاہری ہے جبکہ دوسری آیت میں جو مطلوب ہے وہ یہ کہ کسی ایک بیوی ہی کی طرف پوری طرح سے وہ مائل نہ ہو، کیونکہ دلی میلان ورجحان انسان کی قدرت اور اس کے اختیار میں نہیں ہے بلکہ دل تو اللہ رب العزت کے قبضہ قدرت میں ہیں وہ جس طرف چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی کریم ﷺ یہ دعا فرماتے تھے کہ: " اے دلوں کو پھیرنے والے اللہ! میرا دل اپنے دین پر ثابت رکھ." لیکن اگر ایک سے زیادہ شادی کرنے میں مادی وظاہری عادل بھی فوت ہونے کا خوف ہو تو پھر ایک ہی شادی پر اکتفا ضروری ہے اور دوسری جائز نہیں، چنانچہ اللہ کا فرمان ہے:

﴿فَإِنْ خِفْتُمْ أَلا تَعْدِلُوا فَوَاحِدَةً﴾

ترجمہ: اگر تمہیں خوف ہے کہ تم انصاف نہیں کرو گے تو (صرف) ایک. پھر اس کے بعد والی آیت میں اس کی حکمت بیان کی گئی ہے اور وہ اجتناب ظلم وجور اورتحقیق عدل وانصاف ہے، چنانچہ فرمان الہی ہے:

﴿ذَٰلِكَ أَدْنَىٰ أَلَّا تَعُولُوا﴾

ترجمہ: یہ اس سے زیادہ قریب ہے کہ تم سے ظلم نہ ہو (ترجمہ: کنز الایمان)

چہارم: ضوابط وشرائط کے ساتھ تعدد ازدواج کی رخصت کی مندرجہ ذیل حکمتیں ہیں اور اللہ ہی اس کی حکمتیں زیادہ جانتا ہے:

1- تعدد ازدواج کا مقصد لذت حیوانی کی تکمیل یا عورتوں کا بدلنا نہیں ہے، بلکہ متعدد ضرورتوں وپریشانیوں کا یہ ضروری حل ہے، تاکہ اسلام زندگی کی ضرورتوں وپریشانیوں کے آڑے نہ آئے، کیونکہ اسلام تو زندگی کے تمام مسائل کا صحیح حل تلاش کرکے دیتا ہے اور کسی قسم کی ضرورت وپریشانی کو اس کا صحیح حل دیے بغیر نہیں چھوڑتا ہے، تو بھلا اسلام کسی ضرورت کے آڑے کیسے آ سکتا ہے؟

2- اگر ہم فرض کریں کہ ہمارے سامنے دو نظام ہیں - جیسا کہ پروفیسر محمود عمارہ کہتے ہیں ۔  ان میں سے ایک تعدد ازدواج کی اجازت دیتا ہے، دونوں جنسوں کے مابین دوسرے تمام ممنوعہ تعلقات کو  حرام بتاتا ہے اور عزتوں سے کھلواڑ کرنے والوں اور فحاشی وحرام کاری کرنے والوں کو سخت سزا دیتا ہے، جبکہ دوسرا نظام تعدد ازدواج کو منع کرتا ہے، دونوں جنسوں کے مابین عشق بازی جیسے ممنوعہ تعلقات کی اجازت دیتا ہے اور زنا وحرام کاری کرنے والوں کو کوئی سزا نہیں دیتا ہے...... لہذا ایسی صورت میں تعدد ازدواج کی رخصت دینا ضروری ہے، چنانچہ ظاہر ہوا کہ پہلا نظام ہی سب سے اچھا وبہتر ہے؛ کیونکہ یہ عورت، اس کے حقوق اور اس کی اولاد کی انسانیت کا احترام کرتا ہے ۔  ([27])  

3 - اسلام جب معاشرے کو فردی وجماعتی نقطہ نظر سے دیکھتا ہے تو مصالحہ عامہ کو مصالحہ خاصہ وذاتیہ پر مقدمہ رکھتا ہے تاکہ سب کو فوائد حاصل ہوں اور پریشانیوں سے بچا جا سکے، اس قاعدے کی روشنی میں، ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سات حالات ایسے ہیں جو تعدد ازدواج کا تقاضا کرتے ہیں جن میں سے چار حالتیں مطلقہ، بیوہ، غیر شادی شدہ عمر دراز عورت، اور بانجھ عورت کے ساتھ خاص ہیں جبکہ تین حالات مرد کی طبیعت، حالات جنگ اور کائنات میں اللہ تعالی کے قوانین سے متعلق ہیں۔(

عورت کے ساتھ مختص حالات

(1) مطلقہ، بیوہ اور کنواری عمر دراز یہ سب عورتیں  محرومی کی حالت میں رہتی ہیں، کیونکہ بہت کم لوگ ان سے شادی کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں، لہذا  یہ دباؤ اور فطری خواہش سے تنازع میں زندگی بسرکرتی ہیں، لہذا ان کے سامنے دو اختیارات ہوتے ہیں: یا تو انحراف و فحاشی کی راہ اختیار کر لیں، یا شادی شدہ مردوں کی ۔ دوسری ، تیسری یا چوتھی ۔بیویاں بن جائیں، لہذا ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں عورت کو انحراف وفحاشی سے محفوظ رکھنے کے کے لیے تعدد ازدواج ہی صرف ایک واحد حل ہے۔

(2) عورت کے بانجھ ہونے اور شوہر کی اولاد پیدا کرنے کی فطری خواہش کی حالت میں: چنانچہ ایسی صورت میں شوہر کے پاس دو اختیار ہیں: یا تو فطری خواہش کو پورا کرنے یعنی اولاد پیدا کرنے کے مقصد سے اس عورت کو طلاق دیدے اور دوسری شادی کرلے یا اسے بھی باقی رکھے اور اس کی عیالت کرے اور دوسری شادی بھی کرلے. ظاہر ہے کہ پہلے اختیار کی بہ نسبت دوسرا اختیار ہی عقل کے زیادہ قریب اور بہتر ہے، کیونکہ پہلے اختیار یعنی طلاق میں بیوی کا وقار چلا جاتا ہے اور گھر اجڑ جاتا ہے جبکہ دوسرے اختیار میں یہ سب نہیں ہوتا، نہ صرف یہ بلکہ ہو سکتا ہے کہ اس بانجھ عورت کو دوسری بیوی کے بچوں سے انسیت ہو جائے اور اپنے بچوں سے محرومی کے بدلے ان بچوں سے اسے چین وسکون حاصل ہو جائے ۔ ([29])  اور اللہ (جو چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے)([30])  

مرد کے ساتھ مختص حالات

1- کچھ مردوں کے اندر جنسی خواہش بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اپنی خواہشات پر قابو نہیں پاسکتے ہیں، لہذا انہیں ایک عورت کافی نہیں ہوتی ہے، یا تو جسمانی کمزوری کی وجہ سے یا کسی ایسی بیماری کی وجہ سے جس کا علاج ممکن نہیں ہے یا پھر اس وجہ سے کہ وہ عورت اب بوڑھی چکی ہوتی ہے، تو کیا مرد اپنی خواہش کو دبا دے اور اپنی فطری وطبیعی رغبت کی تکمیل سے روک جائے؟ یا فحاشی اور زنا خوری کے ذریعہ اسے خواہش نفس کی تکمیل کی اجازت دے دی جائے؟ یا پھر اسے پہلی عورت کو باقی رکھتے ہوئے دوسری عورت سے شادی کرنے کی رخصت دے دی جائے؟ لا محالہ تیسرا حل ہی درست وصحيح اور بہتر ہے جو عقل و دانشمندی پر مبنی ہے  جو فطری خواہش کی بھی تکمیل کرتا ہے اور اسلامی اخلاق ومنہج کو بھی باقی رکھتا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ پہلی بیوی کی عزت ووقاراور اس کی معاشرت وکفالت کو بھی محفوظ رکھتا ہے۔

2- نیز کبھی کبھی ایسے حالات ہو جاتے ہیں جن میں عورتوں کی تعداد مردوں کی تعداد سے زیادہ ہو زیادہ ہو جاتی ہے - جیسا کہ جنگوں اور بیماریوں کی صورتوں میں ۔ اور یہ جیسا کہ سید قطب نے کہا کہ اجتماعی اختلال کی واضح صورت ہے، چنانچہ ایسی صورتحال کا کیسے مقابلہ کیا جائے اور ایسا کیا کیا جائے جو مرد وعورت اور ساری انسانیت کے لیے مفید ہو؟ چنانچہ یہاں مندرجہ ذیل تین حلول واختیارات:

پہلا حل:

ہر مرد ایک عورت سے شادی کرے اور دو یا تین عورتیں - یعنی اپنی فیصد کے مطابق - بغیر شوہر وبچوں اور بنا گھر وخاندان کے زندگی بسر کریں۔

دوسرا حل:

ہر مرد ایک عورت سے شادی کرے اور بطور بیوی اسے اپنے ساتھ رکھے، اور باقی دوسری عورتوں کے ساتھ عشق بازی کرے اور ناجائز تعلقات قائم کرے، لہذا اس طرح ان عورتوں کی زندگی مرد تو آ جائے گا لیکن بچوں، گھر اور خاندان سے محروم رہیں گی، نیز شرم وحیا کی وجہ زنا سے پیدا ہونے والے بچوں کا قتل الگ ہوگا۔

تیسرا حل:

ہر مرد ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرے، اور انہیں شرف زوجیت عطا کرے جو ان کے لیے حقیقی گھر وخاندان اور بچوں کا ضامن ہو، اور وہ اپنے آپ کو برائیوں، گناہوں، جرائم، فحاشی اور ملامت ضمیر سے دور رکھے، اور اپنے معاشرے کو بدعنوانی، زنا خوری، فحاشی اور اختلاط نسب سے محفوظ رکھے۔

 

اب سوال یہ ہے کہ سابقہ تین حلوں میں سے کونسا حل انسانیت اور مرد کی مردانگی کے لیے سب سے زیادہ موزوں ومناسب اور خاص عورت کے لیے سب سے بہتر ونفع بخش ہے؟ ([31])

جواب:

بہت زیادہ سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، کیونکہ بلا شبہ تیسرا حل ہی درست وصحیح سب سے افضل وبہتر ہے، جسے ہنگامی حالات کے وقت خواتین ناصرف خوشی بخوشی قبول کرتی ہیں بلکہ اس کی تائید بھی کرتی ہیں اور اس کا مطالبہ بھی، چنانچہ دوسری عالمی جنگ میں نوجوانوں اور مردوں کی ہلاکت کے بعد جرمنی کی خواتین نے مردوں کی قلت، اپنے آپ اور اپنے بچوں کو زنا وفحاشی سے بچانےاور جائز طریقے سے اولاد حاصل کرنے کی وجہ سے تعدد ازدواج کا مطالبہ کیا، لہذا دوسری عالمی جنگ کے بعد خواتین کی کثرت اور مردوں کی قلت کی پرشانی کے حل وعلاج کے لیے میونخ جرمنی میں نوجوانوں کی بین الاقوامی کانفرنس نے اسی تعدد ازدواج کے نظام کے پر عمل کرنے کا حکم دیا۔ (

پنجم:اسلام نے تعدد ازدواج کے نظام کو مہذب اور اسے عدل وانصاف سے مشروط کرکے بھی اسے عورت پر مسلط نہیں کیا اور نا ہی اسے اس کے قبول کرنے پر مجبور کیا ہے بلکہ اس نے عورت کو قبول ومنع کرنے کا پورا اختیار دیا ہے، چنانچہ عورت کو - خواہ کنواری ہو بیوہ- شادی کے قبول ومنع کرنے کی پوری آزادی حاصل ہے، اور نا ہی اس کے ولی کو یہ حق ہے کہ وہ اسے کسی سے شادی کرنے کے لیے مجبور کرے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: " بیوہ عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ لی جائے اور کنواری عورت کا نکاح اس وقت تک نہ کیا جائے جب تک اس کی اجازت نہ مل جائے ۔"(

مزید مروی ہے کہ ایک نوجوان لڑکی نے نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں آکر شکایت کی کہ اس کی مرضی کے بغیر اس کے والد نے اس کا نکاح اس کے چچازاد بھائی سے کردیا ہے، تو نبی کریم ﷺ نے اس کے والد کو بلا کر اسے نکاح کے قبول ومنع کرنے کا پورا اختیار دے دیا، چنانچہ مروی ہے کہ وہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آئی اور کہا: میرے والد نے میرا نکاح اپنے بھتیجے سے کردیا ہے تاکہ میری وجہ سے اس کا مرتبہ اونچا کریں جبکہ میں اسے پسند نہں کرتی ہوں، حضرت عائشہ نے فرمایا: تو نبیﷺ کے تشریف لانے تک بیٹھ، اتنے میں رسول اللہﷺ بھی تشریف لے آئے تو اس نے پوری بات رسول اللہﷺ کو بتائی، آپ نے اس کے والد کو بلایا اور نکاح کا اختیار اس لڑکی کے سپرد دکردیا، وہ لڑکی کہنے لگی:" اے اللہ کے رسول! میں اپنے والد محترم کے کیے ہوئے نکاح کو برقرار رکھتی ہوں، میں تو یہ جاننا چاہتی تھی کہ عورتوں کو بھی اس (نکاح کے) معاملے میں کچھ اختیار ہے یا نہیں۔"(

 

خلاصہ

اسلام نے متعدد مسائل کے حل وعلاج کے لیے تعدد ازدواج کو جائز قرار دیا ہے اور اسے عدل وانصاف کی قید سے مقید کیا ہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، چنانچہ شریعت اسلامیہ ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے  تعدد ازدواج کو معاشرے کے تحفظ وبقا کا بہترین حل وذریعہ سمجھتی ہے، تاہم تعدد ازدواج کا یہ نظام اتنا بھی منتشر نہیں ہے کہ جس سے عورتوں کو تکلیف ہو اور بیمار دل لوگوں کو قرآن مجید میں طعن وتشنیع کرنے کا موقع ملے۔

ہاں کچھ غیر مسلم منصف لوگوں نے اس معاملے میں عقل ودانشمندی، فکر سلیم، عدل وانصاف اور خلوص سے کام لیا ہے، اور خواہشات نفس کی اتباع نہیں کی ہے، لہذا وہ تعدد ازدواج کے نظام کی حقیقت کو سمجھے اور اس کی مدح سرائی بھی کی، چنانچہ ایٹین ڈینیٹ اپنی کتاب" Mohammad the prophet of Allah" میں کہتا ہے: عیسائیت کے ذریعہ اختیار کردہ نظریہ یک زوجیت میں بہت سارے نقصانات شامل ہیں، خاص طور پر معاشرے میں اس کے تین انتہائی سنگین اور خطرناک نتائج سامنے آئے ہیں: جسم فروشی، غیر شادی شدہ بوڑھی عورتوں کی کثرت اور غیر شرعی اولاد، اخلاقی فساد وبگاڑ والی ان معاشرتی بیماریوں کا ان ملکوں میں وجود نہ تھا جن میں اسلامی شریعت وقانون مکمل طور پر نافذ تھا، لیکن ان ملکوں کے مغربی تہذیب وثقافت سے ملوث ہونے کے بعد وہاں بھی یہ بیماریاں داخل ہو گئیں۔(

 ایک انگریزی قلم کار خاتون " London Truth Newspapers" میں لکھتی ہے: میرا دل جنسی آوارہ گردی کرنے والی بے شوہروں کی خواتین پر ترس سے پھٹا جاتا ہے، لیکن میرا رنج وغم سب بے کار ہے اگرچہ تمام لوگ میرے اس رنج والم میں شریک کیوں نہ ہو جائیں، اور اس اذیت ناک مسئلے کا کوئی حل نہیں سوائے اس کے کہ مرد کو ایک سے زیادہ عورتوں سے شادی کرنے کی اجازت دے دی جائے، بلا شبہ اس سے یہ پریشانی دور ہو جائے گی اور ہماری بیٹیاں گھریلو خواتین بن جائیں گی،چنانچہ ساری پریشانی یورپی مرد کو صرف ایک ہی عورت سے شادی کرنے پر مجبور کرنے کی وجہ سے ہے ....(

 نیز وہ معاشرہ جو آزادی اور حقوق کے نام پر عورت کے لیے جائز تعلقات کے دروازے بند کر رہا ہے وہی اس کے لیے برائی فحاشی کے راستے ہموار کر رہا ہے اور اس کے ساتھ کھلونے کی طرح کھیل رہا ہے،  تو وہ اب کن حقوق کی بات کر رہا ہے؟ اور عورت کے کس وقار کی وہ اب مانگ کر رہے ہیں؟ اور اللہ تبارک وتعالی نے حق ہی فرمایا ہے: ﴿مُحْصَنَاتٍ غَيْرَ مُسَافِحَاتٍ وَلَا مُتَّخِذَاتِ أَخْدَانٍ﴾ ([37]) ترجمہ: قید (نکاح) میں آتیاں نہ مستی نکالتی (یعنی عیاشی نہیں کرتی ہوں) اور نہ یار بناتی (ہوں)(ترجمہ کنز الایمان)،لیکن مغربی ممالک کے حال سے ایسا لگتا ہے جیسا کہ وہ کہ رہے ہوں:

﴿أَخْرِجُوا آلَ لُوطٍ مِّن قَرْيَتِكُمْ ۖ إِنَّهُمْ أُنَاسٌ يَتَطَهَّرُونَ﴾

ترجمہ: لوط کے گھرانے کو اپنی بستی سے نکال دو یہ لوگ تو ستھراپن چاہتے ہیں( ترجمہ کنز الایمان)۔

پچھلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day