1. مضامين
  2. شبهات وجوابات پہلا حصہ عورت اسلام كى نظر مىں
  3. عورت کےفتنہ ہونے کےمتعلق شبہ کا رد اور اس کےشیطان کی طرح ہونے کامطلب

عورت کےفتنہ ہونے کےمتعلق شبہ کا رد اور اس کےشیطان کی طرح ہونے کامطلب

مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : हिन्दी

کچھ لوگ سوال کرتے ہیں کہ اسلام عورت کو فتنہ کیوں قرار دیتا ہے؟ اور اسے شیطان ماننے کا کیا مطلب ہے؟

چنانچہ پہلے سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں یہ جاننا ضروری ہے کہ لفظ " فتنہ" کا معنی کیا ہے، چنانچہ یہ لفظ قرآن پاک اور حدیث شریف میں کئ معنوں میں استعمال ہوا ہے لیکن  زیادہ تر اس کا استعمال " امتحان و آزمائش" کے معنی میں ہوا ہے، اور مجھے نہیں معلوم کہ جو لوگ اسلام پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ وہ عورت کو فتنہ قرار دیتا ہے، تو وہ اس لفظ" فتنہ" کا معنی جانتے بھی ہیں یا نہیں، اور قرآن پاک پڑھتے بھی ہیں یا نہیں؟

چنانچہ قرآن پاک واضح طور پر ہمیں یہ بتاتا ہے کہ کہ انسان اپنی زندگی میں جتنے بھی حالات کا سامنا کرتا ہے خواہ اچھے ہوں یا برے، تو وہ سب فتنہ یعنی آزمائش و امتحان ہیں، چنانچہ اللہ تبارک و تعالی ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَنَبْلُوكُم بِالشَّرِّ وَالْخَيْرِ فِتْنَةً﴾

(الأنبياء: 38)

ترجمہ:  اور ہم تمہاری آزمائش کرتے ہیں برائی اور بھلائی سے

(ترجمہ كنز الايمان)

﴿الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا﴾

(الملك:2)

ترجمہ:  وہ جس نے موت اور زندگی پیدا کی کہ تمہاری جانچ ہو (ف۳) تم میں کس کا کام زیادہ اچھا ہے(ترجمہ كنز الايمان)

﴿وَاعْلَمُوا أَنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ وَأَنَّ اللَّهَ عِندَهُ أَجْرٌ عَظِيمٌ﴾(الأنفال: 28)

ترجمہ:  اور یقین رکھو کہ تمہارے اموال اور تمہاری اولاد محض آزمائش ہیں اور بے اللہ ہی کے پاس اجر عظیم ہے(ترجمہ تبيان القرآن)

لہذا عورت فتنہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ عورت مرد کے لیے آزمائش و امتحان ہے،کہ کیا مرد اپنے رب و پروردگار کی اطاعت و فرمانبرداری سے غافل ہو کر اپنا پورا وقت عورت کے لیے صرف کرے گا؟ کیا وہ مرد عورت کی خاطر اللہ تعالی کی نافرمانی کرے گا اور بد نگاہی کرے گا؟ اور کیا اس کے حسن و جمال میں فریفتہ ہو کر اس کے ساتھ ناجائز و غیر شرعی تعلقات قائم کرے گا ؟ یا پھر وہ اپنے خدا سے ڈرے گا اور عورت کے ساتھ صرف جائز طرح سے تعلقات قائم کرے گا جس میں اس کے پروردگار کی رضا ہو؟

اسی طرح سے مرد بھی عورت کے لیے امتحان وآزمائش ہے، چنانچہ کوئی شخص بہت خوبصورت اور مالدار ہو لیکن وہ پابند شریعت نہ ہو، ایسا شخص کسی عورت کو شادی پیغام دے، آیا وہ عورت اس کی خوبصورتی یا دولت کی طرف راغب ہو کر اسے شوہر قبول کرے گی یا اسے اپنا عاشق ومحبوب بنائےگی اور اللہ کی نافرمانی کرے گی؟ یا پھر وہ  یہ اپنے دماغ میں رکھے گی کہ وہ ایک امتحان و آزمائش میں ہے لہذا وہ صرف ایسے ہی شخص سے شادی کرے گی جو پابند شریعت ہو اور اس سے صرف جائز طریقے سے ہی تعلقات قائم کرے گی؟

اسی طرح سے اولاد بھی اپنے والدین کے لئے ایک امتحان و آزمائش ہیں، آیا یہ بچے والدین کے لیے اطاعت خداوندی میں رکاوٹ بنیں گے؟ کیا والدین ان کی اسلامی تربیت کریں گے ؟ یا پھر وہ ان کی مغربی تربیت کریں گے جس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے؟

لہذا حقیقت یہ ہے کہ عورت کو فتنہ کہنے میں کسی قسم کی اس کی کوئی توہین نہیں ہے، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اولاد کو بھی تو فتنہ بتایا ہے، تو کیا اس میں اولاد کی توہین ہے؟ یقیناً بالکل نہیں، کیونکہ جب ہمیں یہ معلوم ہے کہ فتنہ کے معنی امتحان و آزمائش ہیں،  تو اس لحاظ سے فتنہ کا اطلاق سب پر صحیح ہے جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالی نے اس آیت میں ذکر کیا ہے:

﴿وَجَعَلْنَا بَعْضَكُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَةً أَتَصْبِرُونَ﴾(الفرقان 20)

 {اور ہم نے تم میں ایک کو دوسرے کی جانچ کیا ہے اور اے لوگو! کیا تم صبر کرو گے ؟} (ترجمہ كنز الايمان)

 لہذا ، ہم میں سے ہر ایک اپنے آس پاس والے کے لیے آزمائش (فتنہ) ہے۔

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ: کیا اسلام عورت کو شیطان سمجھتا ہے؟ بالکل نہیں یہ سراسر جھوٹا الزام ہے کیونکہ اگر عورت کے بارے میں اسلام کا ایسا نظریہ ہوتا تو مرد کے بارے میں بھی اس کا یہی نظریہ ہوتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

" النساء شقائق الرجال. "

عورتیں - پیدائش اور طبعی اوصاف میں- مردوں  کی طرح ہیں.

لہذا اگر عورتیں شیطان ہیں تو مرد بھی شیطان ہوں گے، کیونکہ مرد -خلقت میں - عورتوں کی طرح ہیں.

لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ محض ایک الزام ہے جس سے دشمنانِ اسلام کا مقصد لوگوں کو  اسلام سے روکنا ہے، کیونکہ اللہ تبارک و تعالی نے تمام بنی آدم مرد ہوں خواہ عورتیں سب کو یکساں بنا تفریق عزت بخشی ہے، چنانچہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :

﴿وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ﴾(الإسراء: 70)

چنانچہ اسلام میں عورت کو ایک نمایاں مقام حاصل ہے اور یہ ہر وہ شخص جانتا ہے جسے عورتوں کے حوالے سے اسلام اور اس کی تعلیمات سے ادنی سی بھی واقفیت ہے۔

در حقیقت ان لوگوں نے یہ شبہ (کہ اسلام عورت کو شیطان کی حیثیت سے دیکھتا ہے) حدیث پاک سے لیا ہے جیسا کہ وہ ہمیشہ کرتے چلے آئے ہیں کہ احادیث کو ایسے معانی پر محمول کرتے ہیں جن کا احتمال بھی نہیں ہوتا اور انہیں توڑ مروڑ کر بیان کرتے ہیں، چنانچہ ایک صحیح حدیث پاک ہے جسے امام مسلم اور دیگر محدثین نے روایت کیا ہے، اس میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“إنّ المَرأَةَ تُقبِلُ في صُورةِ شَيطَانٍ وتُدْبِرُ في صُورَةِ شَيطَان فإذَا رأَى أحَدُكم امرأَةً أَعْجَبَتْهُ فَلْيَأتِ أهْلَهُ فإنّ ذلكَ يَرُدُّ مَا في نَفْسِه.”

"بے شک (فتنے میں ڈالنے کے حوالے سے) عورت شیطان کی صورت میں سامنے آتی ہے اور شیطان ہی کی صورت میں مڑکر واپس جاتی ہے، تم میں سے کوئی جب کسی عورت کو دیکھے اور وہ اسے بھا جائے تو وہ اپنی بیوی کے پاس آ جائے (یعنی جماع کرلے) ، بے شک یہ چیز اس خواہش کو دور کر دے گی جو اس کے دل میں (اس عورت کو دیکھ کر پیدا ہوئی) ہے۔"

پروفیسر عبد الحکیم صادق الفیتوری کہتے ہیں: اس حدیث پاک کی عبارت میں کوئی ایسی چیز نہیں جس کا انکار کیا جائے، اور اس میں کوئی بھی ایسی چیز نہیں ہے جس سے عورت کی توہین و تذلیل ہوتی ہو، بلکہ حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے مردوں کے اندر عورتوں کی طرف رغبت و رمیلان اور انہیں دیکھ کر لذت حاصل ہونا رکھا ہے، اور ان کی طرف دیکھنا فتنہ اور باعث گناہ ہے، لہذا عورت کی شکل وصورت مرد کو ایسے ہی بہکا دیتی اور انہیں حرام کام کی طرف لے جاتی ہے جیسے کہ شیطان  بندوں کو بہکا دیتا ہے اور اور انہیں حرام کام کی طرف لے جاتا ہے، اور یہ بات مشاہدہ سے ثابت ہے۔

چنانچہ حدیث مذکور عورتوں کو حجاب نہ پہننے کے نتائج سے متنبہ کرنے کے تناظر میں آئی ہے تاکہ مرد ان کی وجہ سے نہ بہکیں اور وہ مردوں کی وجہ سے نہ بہکیں، نیز عورت کو دیکھ کر مرد کے اندر جو خواہش یا شہوت پیدا ہوتی ہے اس حدیث پاک میں اس کے علاج کی طرف بھی رہنمائی کی گئی ہے، اور وہ یہ کہ وہ شخص اپنی بیوی کے پاس آ جائے اور مباشرت کرلے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کے اندر کی - اس عورت کو دیکھ کر پیدا ہونے والی- شہوت وخواہش دور ہو جائے گی إن شاء الله۔

مذکورہ شکوک وشبہات مذہب اسلام میں عورت کی عظمت سے واقفیت نہ ہونے اور اس غلط تصور کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں کہ اسلام عورت کے مقابلہ میں مرد زیادہ عزت دیتا ہے اور اسی کی حمایت کرتا ہے، جبکہ بعض احادیث میں مرد کو بھی اس کے غلط کام کرنے کی وجہ سے شیطان کہا گیا ہے، چنانچہ آپ نبی کریم ﷺ نے ایسے مرد کو شیطان کہا ہے جو اپنی ہمبستری کی باتیں دوسروں سے بتائے، اور اسی طرح اس عورت کو بھی شیطان کہا ہے جو اپنی ہمبستری کے راز دوسروں سے بیان کرے، چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

“فإنما مثل ذلك مثل شيطان لقي شيطانة فغشيها والناس ينظرون.”

" کیونکہ اس کی مثال ایسے ہی ہے جیسے کوئی ( مذکر) شیطان کسی (مؤنث) شیطانہ سے ملا ،اور لوگوں کے سامنے ہی اس سے بدکاری کرنے لگے۔ ‘‘

اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے. اقتباس ختم ہوا۔

لہذا شیطان سے مشابہت کی بنیاد مرد وعورت ہونے پر نہیں ہے بلکہ اس کی بنیاد مرد یا عورت کے ذریعہ کئے گئے عمل پر ہے، اور یہ عربی زبان کا ایک اسلوب ہے، اس کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ مرد یا عورت خود ایک شیطان ہے، جیسا کہ کچھ لوگوں تصور کرتے ہیں اور اپنے اس غلط تصور کو پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day