Search
بکثرت سجدے کیا کرو
معدان بن ابی طلحہ یعمری کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ ﷺ کے آزاد کردہ غلام ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملا اور میں نے کہا کہ مجھے ایسا کام بتلاؤ جس کو میں کروں تو اس کی وجہ سے اللہ تعالی مجھے جنت میں داخل فرما دے یا یوں کہا کہ مجھے وہ کام بتاؤ جو اللہ کو سب سے زیادہ پسند ہو، یہ سن کر سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ چپ رہے، میں نے پھر ان سے پوچھا تو چپ رہے، تیسری بار پھر پوچھا تو کہا کہ میں نے بھی یہ بات اللہ کے رسول ﷺ سے پوچھی تھی تو آپ ﷺ نے فرمایا تھا :’’ بکثرت سجدہ کیا کرو کیونکہ اللہ کے واسطے اگر تم ایک سجدہ کرو گو تو اللہ تمہارا ایک درجہ بلند فرمائے گا اور ایک گناہ معاف فرمائے گا۔‘‘ معدان نے کہا کہ پھر میں سیدنا ابو درداء رضی اللہ عنہ سے ملا اور ان سے بھی یہ پوچھا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کہا جیسا سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا تھا۔
یقیناً نماز ایمان کی اعلی ترین صورت بھی ہے اور سب سے بہتر عبادت بھی، اور نماز بندے اور اس کے رب کے مابین ایک مظبوط تعلق ہے جہاں بندہ کو روحانی اطمینان وسکون حاصل ہوتا ہے بلکہ اسے اپنا فطری مزاج ملتا ہے جس پر اسے اللہ نے پیدا کیا ہے، کیونکہ نماز اسے بے حیائی اور بری باتوں سے روکتی ہے اور بندہ کو اس کی عقل وخرد کی جانب بحال کرتی ہے جس سے وہ اپنے پروردگار کی صفات کمالیہ اور اس کے اوصاف جلیلہ کو پہچانتا ہے اور پھر وہ اپنی نمازوں اور تنہائیوں میں اپنے رب کریم سے ایسے ڈرتا اور اس کی اطاعت فرمانبرداری کرتا ہے جیسے کہ اس رب کریم کی عظمت وکبریائی کے آگے جھکنے والے، اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرنے والے، اس کی نعمتوں کو شکر کرنے والے ڈرتے اور اس کی اطاعت وفرمانبرداری کرتے ہیں اور اپنے ان زندہ وجاگتے دلوں سے اپنے پروردگار تک رسائی اور اس کی بارگاہ میں مقبولیت کی کوشش کرتے ہیں جو نماز کی برکت اور اس کے فضل سے شرک کی ظاہری وپوشیدہ نجاستوں، شیطانی وسوسوں اور باطل شبہات سے پاک وصاف ہو چکے ہیں اور علم وایمان کی روشنی نے انہیں اجاگر کر دیا ہے اور اب وہ اسی کے لیے خاص ہیں۔
بے شک نماز ذکر وفکر دونوں ہے
ذکر اس لیے کہ وہ ہر طرح کے دلی اور زبانی ذکر پر مشتمل ہے، چنانچہ دل ذکر کرتا ہے اور زبان اس کا ترجمہ کرتی ہے اور اس کو بیان کرتی ہے، اور اعضاء وجوارح اس ذکر سے متاثر ہوتے ہوئے نرم پڑ جاتے ہیں اور ذوق وشوق اور خشوع وخضوع کے ساتھ رب کے حضور بکثرت سجدے کرنے سے جو قلبی اور روحی اطمینان وسکون بندے کو ملتا ہے اس سے اس کا ایمان بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ اس کی ذاتی خواہشات خواہشات ربّانیہ(یعنی وہ خواہشات جنہیں اللہ بندے سے چاہتا ہے اور انہیں بندے سے پسند کرتا ہے ) میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔
بے شک نماز اللہ (کے حکم) کی جانب سعی کرنا اور دوڑناہے، اور اللہ (کے حکم) کی جانب سعی کرنے ودوڑنے کی تین قسمیں ہیں:
1: کفر سے اسلام کی جانب دوڑنا، اور نماز اسلام کے ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے اور اس کی صحت پر قوی دلیل ہے۔
2: گناہ سے نیکی اور نافرمانی سے طاعت وفرمانبرداری کی جانب دوڑنا، اور نماز بندہ کو نافرمانی اور گناہوں سے دور اور نیکی وطاعت وفرمانبرداری سے قریب کرتی ہے،چنانچہ اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنۡہٰی عَنِ الۡفَحۡشَآءِ وَ الۡمُنۡکَرِ ﴾
(سورہ عنکبوت: 45)
ترجمہ: بے شک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے۔
3: اللہ سے اللہ کی جانب دوڑنا یعنی وہ اپنے دل اور اپنی زبان سے اس طرح کہے جیسا کہ نبی کریم ﷺ کہتے تھے کہ :
" اللَّهُمَّ إِنِّى أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ وَبِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ لاَ أُحْصِى ثَنَاءً عَلَيْكَ، أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ." ترجمہ: اے اللہ، ميں تيرى خوشنودى كی تيرے غضب سے ، اور تيرى معافى كی تيری سزا سے، اور تجھ سے تيرى پناہ مانگتا ہوں، ميں تيرى خوبياں شمار نہیں كر سكتا، تو ويسا ہی ہے جيسى تو نے اپنی تعريف كى۔