1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. تم اپنے وارثوں کو اپنے بعد مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں

تم اپنے وارثوں کو اپنے بعد مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں

1783 2020/06/23 2024/12/18
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी Español

سعد بن ابی وقاص نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ ( حجۃ الوداع میں ) میری عیادت کے لیے تشریف لائے، میں اس وقت مکہ میں تھا۔ اور حضور اکرم ﷺ اس سر زمین پر موت کو پسند نہیں فرماتے تھے جہاں سے کوئی ہجرت کر چکا ہو۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: " اللہ ابن عفراء ( سعد بن خولہ رحمہ اللہ ) پررحم فرمائے"۔  میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! میں اپنے سارے مال کی وصیت کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا: پھر آدھے کی کردوں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: نہیں۔ میں نے پوچھا: پھر تہائی کی کردوں؟

آپ ﷺ نے فرمایا: "تہائی کی کرسکتے ہو اوریہ بھی بہت ہے، اور تم اپنے وارثوں کو اپنے بعد مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں، بے شک (نیک دلی سے) جو بھی تم خرچ کرتے ہو تو وہ صدقہ ہے یہاں تک کہ وہ لقمہ بھی جو تم اپنی بیوی کے منھ میں ڈالتے ہو،  اور ممکن ہے کہ اللہ تعالی تمہاری عمر میں برکت دے اور اس کے بعد تم سے بہت سے لوگوں کو فائدہ ہو اور (اسلام کے مخالف) دوسرے بہت سے لوگ نقصان اٹھائیں، اس وقت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی۔

چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اپنے سارے جوابات کی وجہ اپنے اس فرمان سے بیان فرمائی کہ: " اور تم اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ انہیں محتاج چھوڑو کہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں"۔

 یعنی اگر تم اپنے وارثوں کو مالدار چھوڑ کر جاؤ تو یہ تمہارے لیے بھی اور ان کے لیے بھی اس سے بہتر ہے کہ تم انہیں غریب وفقیر چھوڑ کر جاؤ کہ وہ پھر دوسرے لوگوں سے بھیک مانگتے پھریں پس وہ ان کے ہاتھوں میں تھوڑا بہت کچھ ڈال دیں جس سے دنیا اور آخرت میں ان کی ذلت و رسوائی ہو۔

اس حدیث میں جو مالدار آیا ہے اس سے مراد یہ ہے کہ ان کی زندگی کا ضرورت بھر مال ہو نہ کہ یہ کہ بہت زیادہ مال ہو، پس جس کے پاس ضرورت بھر کھانے پینے رہنے کا سامان اور دیگر ضروری چیزیں ہیں گویا کہ اس کے پاس ساری دنیا ہے۔

 حدیث پاک مذکور لفظ " عالہ" سے مراد وہ لوگ ہیں جو دوسروں پر بوجھ ہوں، یعنی دوسروں سے اپنی ضرورت کی چیزیں طلب کریں اور ان سے پیسوں وغیرہ کی بھیک مانگیں۔

انسان جس کی کفالت کرتا ہے تو وہ اس کا اپنی زندگی میں بھی ذمہ دار ہے اور مرنے کے بعد بھی ذمہ دار ہے جبکہ اس کے پاس اتنا مال ہو جس سے کہ اس کے اس دنیا سے جانے کے بعد اس کی کفالت میں رہنے والا شخص یا وارث اپنے زندگی کی ضروریات کو پورا کر سکے۔

انسان مرنے کے بعد ایک یاد بن کر رہ جاتا ہے، اور انسان کی یاد اس کی دوسری زندگی ہے، لہذا انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے بعد والوں کے لیے کچھ مال وغیرہ چھوڑ کر جائے جس سے وہ اسے یاد کرتے رہیں۔

نیز ہمیں اس حدیث پاک سے یہ درس ملتا ہے کہ انسان بیماری کے وقت وصیت کرنے میں جلد بازی سے کام نہ لے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالی اسے شفا عطا فرمائے اور اسے لمبی عمر عطا کرے اور پھر وہ زندگی میں اپنے مال سے فائدہ اٹھائے، لہذا جب تک زندہ رہنے اور نیک عمل کرنے کی امید کی کرن رہے جب تک وہ اپنے پورے، یا آدھے یا تہائی مال کے نکالنے یا کسی کو دینے کی وصیت کرنے میں جلد بازی نہ کرے، اور اگر وصیت کرنا ضروری سمجھتا ہو ہو تو صرف ایک تہائی مال کے اندر اندر ہی کرے۔

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day