Search
جب تم مریض یا میت کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہو
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:" جب تم مریض یا میت کے پاس جاؤ تو اچھی بات کہو، کیونکہ جو تم کہتے ہو اس پر فرشتے آمین کہتے ہیں" حضرت ام سلمہ فرماتی ہیں کہ جب ابوسلمہ کا انتقال ہوا، تو میں نے نبی اکرمﷺ کے پاس آکر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ابوسلمہ فوت ہوگئے ہیں۔" تو آپ ﷺ نے فرمایا: تو تم یہ دعا پڑھو : "اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَلَهُ، وَأَعْقِبْنِي مِنْهُ عُقْبًى حَسَنَةً " (اے اللہ ! مجھے اور انہیں بخش دے، اور مجھے ان کا نعم البدل عطافرما) وہ کہتی ہیں: جب میں نے یہ دعا کی تو اللہ نے مجھے ان سے بہتر (خاوند) عطا فرمایا یعنی محمد رسول اللہﷺ۔
کسی مسلمان کا عیادت کے لیے اپنے بیمار مسلمان بھائی کے پاس جانا اس پر اور اس کے اہل خانہ پر برکت کا سبب ہے، وہ بہترین اور اچھی باتوں سے اسے تسلی دے، اور وعظ ونصیحت، اچھے طبیب کی طرف رہنمائی کرکے یا کچھ مزاحیہ یا ایسی باتیں کرکے اپنے مسلمان بھائی کو خوش کرے کہ جس سے تکلیف کم ہو جائے، لیکن ساتھ میں عیادت کے ان عام آداب کا بھی خیال رکھے جن کی اللہ کے رسول ﷺ نے اپنے قول وفعل کے ذریعے وصیت فرمائی ہے اور ہم تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے منتقل ہوتے ہوئے پہونچے ہیں۔
اور کسی مسلمان بھائی کے انتقال کے وقت تعزیت کے لیے حاضر ہونا اس کے لیے شفاعت وبخش اور مغفرت کا سبب ہے، کیونکہ حاضر ہونے والا شخص اپنے اس مسلمان بھائی کے لیے ایسی نیک دعائیں کرے گا جو اس کے لیے اس کی قبر اور آخرت میں نفع بخش ہونگی ۔
لہذا مریض اور میت کے لیے دعا سے بہتر کوئی چیز نہیں ہے۔
اور مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنے اور اپنے مسلمان بھائی کے لیے ایسی بہترین ومکمل دعا کا انتخاب کرے جو قرآن و سنت سے ماخوذ ہو۔
اور دعا مریض کی حالت اور اس کی ضرورت کے موافق اور ميت کے مناسب ہونا چاہیے جو آخرت میں اس کے لیے نفع بخش ہو۔
بلکہ دعا میں مریض اور میت کے گھر والوں کو بھی شامل کر لینا چاہیے چنانچہ ان کے لیے بھی مناسب دعا کرے کہ جس سے انہیں تسلی ہو اور ان کا رنج وغم دور ہو جائے اور جو قضائے الہی سے راضی رہنے میں ان کی مدد کرے۔
اس سے انہیں اطمینان وسکون حاصل ہوگا اور مرحوم کے اچھے انجام اور انہیں صبر وشکر ادا کرنے پر اجر عظیم کی بشارت ملے گی۔