Search
اپنے اوپر سختی مت کرو ورنہ تم پر سختی کردی جائے گی
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے تھے: اپنے اوپر سختی مت کرو ورنہ تم پر سختی کردی جائے گی، ایک قوم نے اپنی جانوں پر سختی کیں تو اللہ نے بھی ان پر سختی کردی،چنانچہ جنگلوں میں معبدوں کے اندر اور گرجا گھروں میں انہی لوگوں کے بقایا لوگ ہیں، ان لوگوں نے خود رہبانیت (ترک دنیا) گڑھی، ہم نے ان پر لازم نہیں کی"۔
یقیناً دین میں سختی اس میں غفلت کرنے سے زیادہ خطرناک ہے یا یہ کہیے کہ وہ دونوں برابر ہی ہیں، کیونکہ افراط وتفریط (زیادتی وسختی اور کمی وغفلت) دونوں ہی اسلامی وسطیت کے خلاف ہیں جس کا مطلب ہر معاملے میں اعتدال ومیانہ روی سے کام لینا ہے۔
غیر ضروری سختی وشدت کرنا بلا وجہ ظلم وستم کرنا اور اسلامی خصوصیات کو ختم کرنا ہے جن میں سے آسانی، رفع حرج، مشقت وپریشانی دور کرنا اور قلت تکالیف (ذمہ داریاں) بھی ہیں۔
لوگوں پر شدت وسختی عائد کرنا ان پر ظلم وستم اور ان کے ساتھ نا انصافی کرنا ہے، جیسا کہ اس میں عدل وانصاف کے اس پیمانہ کی خلاف ورزی بھی ہے جسے کہ اسلام نے اپنے ہر قانون میں قائم کیا ہے۔
تشدد وسختی کی بے شمار قسمیں ہیں، لیکن دو مندرجہ ذیل اصل قسموں میں ان کا انحصار کیا سکتا ہے:
(1) عبادت میں مبالغہ وزیادتی کی غرض سے دین میں غلو کرنا، چنانچہ اس طرح کا غلو وزیادتی بہت بری چیز اور ایک بدعت ہے جسے عام طور پر سبھی آسمانی شریعتوں اور خاص طور پر شریعت محمدیہ نے نا پسند کیا ہے۔
(2) وہ من گھڑت شدت وسختی جو اسلام کے بالکل خلاف ہو اور جو احباب ودوستوں میں تفریق وجدائی کا سبب ہو۔