1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر و

اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر و

1082 2020/06/22 2024/12/18
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी

حضرت جابر بن عبد اﷲ رضی اللہ عنہما سے مروی وہ کہتے ہیں: رسول اﷲ ﷺنے ہمیں خطبہ دیا اور ارشاد فرمایا: اے لوگوں! مرنے سے پہلے اللہ کی بارگاہ میں توبہ کر لو، اور (دوسرے کاموں میں) مشغول کر دیے جانے سے قبل اعمال صالحہ میں جلدی کر لو، کثرتِ ذکر اور ظاہری اور باطنی طور پر صدقہ کرنے سے اپنے اور اپنے رب کے درمیان تعلق پیدا کرو، (اور اس تعلق کو مضبوط کرلو، ) تو تمہیں رزق بھی دیا جائے گا اور تمہاری مدد بھی کی جائے گی۔

یہ ایک ایسی وصیت ہے جو تمام خصال خیر کو جامع ہے جو نبی کریم ﷺنے لوگوں کو عطا فرمائی جو کہ ان کی زندگیوں کی اصلاح اور ان کی اللہ عزوجل تک رسائی کے لیے ایک روشن وبہتر راہنما کی حیثیت رکھتی ہے۔

چنانچہ نبی کریم ﷺنے اس وصیت کا آغاز اللہ کی بارگاہ میں توبہ کرنے اور اس کی جانب رجوع کرنے کے ذریعے فرمایا، کیونکہ یہ یعنی توبہ نہ صرف اللہ کی جانب جانے والے راستے کی ابتدا ہے بلکہ اس کی انتہا اور اس کا درمیانی حصہ بھی ہے، کیونکہ توبہ ایک سچے وپکے مومن کے ہر وقت ساتھ رہتی ہے، وہ رات ودن اسی کے سائے میں زندگی بسر کرتا ہے، اور جب بھی اسے اپنے کسی گناہ اور اپنے پروردگار کی نا فرمانی کا احساس ہوتا ہے اور اس کے عذاب کا خیال آتا ہے تو وہ فوراً اپنے رب کریم کی بارگاہ توبہ کرتا ہے چنانچہ اس سے اس کے بے چین اور تڑپتے دل کو سکون حاصل ہوجاتا ہے، اس میں رب کریم کی رحمت وبخشش کی امیدیں اجاگر ہو جاتی ہیں اور نا امیدی اور مایوسی دور ہو جاتی ہے۔

یہاں پر ہم توبہ ارکان ذکر کرنا چاہتے ہیں، چنانچہ اس کے مندرجہ ذیل پانچ ارکان ہیں:

(1)  پہلا رکن: گناہ کی سنگینی اور اس کے خطروں کو جاننا۔

(2)  دوسرا رکن: جلدی سے توبہ کرنا اور گناہ کو چھوڑ دینا۔

(3)  دوبارہ اس گناہ کو نہ کرنے کا پکا ارادہ رکھنا۔

(4)  جو نمازیں، روزے اور زکاتیں وغیرہ چھوٹ گئی ہیں انہیں قضا کرنے کا عزم مصصم کرنا اور جو کوتاہیاں ہوئی ہیں جہاں تک ہو سکے ان کا تدارک کرنا۔

(5)  اگر کسی کا کوئی حق چھینا ہے تو اس کے حقدار ومالک کو اسے واپس دینا اور اگر مالک نہ ہو تو اس کے وارث کو دینا اور اگر وارث بھی نہ ہو تو اس کی طرف سے وہ چھینی ہوئی چیز صدقہ کر دینا۔

توبہ کرنے والے لوگ چار طرح کے ہوتے ہیں:

(1)  اصحاب نفوس مطمئنہ: یہ وہ لوگ ہیں جو توبہ نصوحہ (یعنی سچی وخالص توبہ) کرتے ہیں اور پھر عمر بھر اس پر قائم رہتے ہیں۔

(2)  اصحاب نفوس لوامہ: یہ وہ لوگ ہیں جو سچے دل سے توبہ کرتے ہیں اور اہم عبادتوں میں سیدھے راستہ پر چلتے ہیں، بڑے گناہ چھوڑ دیتے ہیں، اور جان بوجھ کر چھوٹے گناہ بھی نہیں کرتے، اور اگر انجانے میں ان سے کوئی چھوٹا گناہ ہو جائے تو خود ہی اپنے آپ کو ملامت کرتے ہیں۔

(3)  اصحاب نفوس مسوّلہ (سرکش نفس والے لوگ) یہ لوگ ہیں جن کا نفس عام طور پر ان پر حاوی ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان سے گناہ کا صدور ہو جاتا ہے لیکن بعض اوقات وہ اس پر قابو پا لیتے ہیں۔

(4)   اصحاب نفوس امارہ یعنی جن کا نفس انہیں گناہ پر ابھارتا ہے، یہ وہ لوگ ہیں جو گناہوں سے توبہ تو کرتے ہیں لیکن انہیں پورے طور پر چھوڑنے کا عزم مصصم نہیں کر پاتے اور نہ ہی اپنی کوتاہیوں کو پورا کرنے کا پکا ارادہ کر پاتے ہیں، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یہ لوگ پھر دوبارہ گناہوں میں ملوث ہو جاتے ہیں اور پھر توبہ کرنے کی نہیں سوچتے۔

پچھلا مضمون اگلا مضمون

اسی قسم کے مضامین

" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day