Search
خوش ہو جاؤ اور ایسی چیز کی توقع وامید کرو جو تمہیں خوش کر دے گی
حضرت عمرو بن عوف انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے حضرت ابو عبیدہ بن جراح کو بحرین روانہ فرمایا تاکہ وہاں (کے لوگوں) کا جزیہ لے کر آئیں، حضرت ابوعبیدہ بحرین سے مال لے کر آئے، انصار کو حضرت ابو عبیدہ کی آمد کا علم ہوا تو انہوں نے فجر کی نماز (مسجد نبوی میں) رسول اللہ ﷺ کی اقتداء میں ادا کی، رسول اللہ ﷺ جب نماز سے فارغ ہو کر لوٹے تو وہ لوگ آپ کے سامنے آگئے، رسول اللہ ﷺ انہیں دیکھ کر مسکرائے اور فرمایا: میرا خیال ہے کہ تم کو خبر ہو گئی ہے کہ ابو عبیدہ بحرین سے کچھ لائے ہیں؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اللہ کے رسول! تو آپ ﷺ نے فرمایا: خوش ہو جاؤ اور ایسی چیز کی توقع وامید کرو جو تمہیں خوش کر دے گی، خدا کی قسم! مجھے تم پر فقر کا اندیشہ نہیں، لیکن میں اس با ت سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا تم پر اسی طرح کشادہ نہ کردی جا ئے جیسے تم سے پہلے کے لوگوں پر کر دی گئی تھی، تو تم بھی اسی طرح اس کے لیے ایک دوسرے پر سبقت کرنے لگو جیسے ان لوگوں نے کی تھی، تو یہ (دنیا) تمہیں اسی طرح تباہ وبرباد کردے جیسا کہ انہیں تباہ وبرباد کر دیا"۔
اہل عرب کی یہ عادت تھی کہ جب وہ کسی چیز کا وعدہ کرتے تو کہتے: خوش ہو جاؤ، یعنی تمہاری حاجت پوری ہو گئی یا جلد ہی پوری کردی جائے گی، چنانچہ یہ بہت مؤثر کلمہ ہے اور اس میں نیک فالی ہے۔
اور نبی کریم ﷺ کے فرمان:" وَأَمِّلُوا" کا مطلب ہے جو جو چاہو مانگ لو، کیونکہ جب تک میں تمہاری گزارش ومانگ کو پورا کرنے پر قادر ہوں تب تک میں اسے رد نہیں کروں گا، مال کی امید وتوقع کرنا پسندیدہ ہے، اور خاص طور پر جب اس کا استعمال صحیح جگہ پر کیا جائے، تم اللہ پر ایمان رکھتے ہو، اور مالداری کی آرزو کرتے ہو اور فقیری ڈرتے ہو تو چیز تمہارے ایمان کی منافی اور مخالف نہیں اور اس سے تمہارے ایمان پر کوئی فرق نہیں پڑے گا، کیونکہ یہ انسانی فطرت اور اس کی طبیعت میں سے ہے، اور مال پسندیدہ چیز ہے اور اس کے بے شمار فوائد ہیں نیز اسی پر تو ایک اچھی زندگی کی بنیاد قائم ہے۔
لیکن نبی کریم ﷺ کے فرمان: "أَبْشِرُوا وَأَمِّلُوا مَا يَسُرُّكُمْ (یعنی خوش ہو جاؤ اور ایسی چیز کی توقع وامید کرو جو تمہیں خوش کر دے) کے بعد آپ ﷺ کا ایک حکیمانہ کلام بھی ہے جو اس امید وآرزو کی حد مقرر کرتا ہے اور اسی صرف وسطیت یعنی اعتدال ومیانہ روی تک ہی محدود رکھتا ہے، چنانچہ جہاں غربت وفقیری کے نقصانات ہیں وہیں مالداری کے بھی بہت سے نقصانات ہیں، لیکن تمام بھلائی اعتدال اور میانہ روی میں ہے، اور وہ یہ ہے کہ مسلمان کے پاس اتنا مال ہو جو اس کے گزارے کے لیے کافی ہو نہ کہ اتنا کہ جس سے وہ سرکش بن جائے۔