1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. اور اللہ کی قسم اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو

اور اللہ کی قسم اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو

981 2020/06/25 2024/11/10
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اپنے باپوں یا ماؤں کی قسمیں نہ کھایا کرو اور نہ بتوں کی، صرف اللہ کی قسم کھایا کرو اور اللہ کی قسم اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو"۔

اسلام سے قبل زمانہ جاہلیت میں اہل عرب اپنے باپوں، ماؤں اور بتوں کی بہت زیادہ قسمیں کھایا کرتے تھے، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے انہیں اس سے منع فرمایا، کیونکہ اس میں غیر اللہ کی تعظیم وتوقیر ہے، اور یہ (یعنی غیر اللہ کی تعظیم و توقیر کرنا) کسی بھی ایسے شخص کو شوبھا نہیں دیتا جو اللہ پر ایمان رکھتا ہو، صرف اسی کی عبادت کرتا ہو اور اپنے دل میں اس کی عظمت وجلالت رکھتا ہو، کیونکہ جس نے اللہ عزوجل کو اس کے بہترین ناموں اور اعلی صفتوں کے ساتھ پہچان لیا تو وہ اس سے اپنے ماں باپ بلکہ خود اپنی جان سے زیادہ محبت کرے گا، اور اسے ساری کائنات میں صرف اسی پروردگار کی ذات نظر آئے گی، پس اگر اسے قسم کھانے کی ضرورت ہوگی تو وہ صرف اللہ کی ہی قسم کھائے گا۔

جو شخص اللہ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائے اور یہ اعتقاد رکھے کہ اس چیز کی بھی اللہ ہی جیسی تعظیم ہے تو یقیناً اس چیز کی قسم حرام ہے اور قسم کھانے والا شخص اپنے اس اعتقاد کی وجہ سے کافر ہو جائے گا۔

اور جو اللہ کے علاوہ کسی چیز کی قسم کھائے لیکن مذکورہ بالا اعتقاد نہ رکھے تو اس کی قسم مکروہ ہے، لیکن اگر دل کے ارادے کے بغیر ہی زبان سے ایسی قسم نکل گئی تو قسم لغو وبے کار ہے اور اس کا کوئی حکم نہیں ہے۔

پس جب مومن صرف اللہ ہی کی بڑھائی کرتا ہے تو وہ - ضرورت کے وقت- صرف اللہ ہی کی قسم کھائے، اور اس کی ذات کے ادب اور اس کی عظمت کا خیال رکھے، کیونکہ صرف اللہ ہی اس بندہ کو اس پر لگائی گئی تہمت یا الزام سے بری کر سکتا ہے، تو بھلا وہ کیوں اللہ کے علاوہ کسی کی قسم کھا ئے جبکہ اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں سارا معاملہ ہے؟!

نبی کریم ﷺ کے فرمان: "اور اللہ کی قسم اسی صورت میں کھاؤ جب تم سچے ہو" سے مقصود یہ ہے کہ زیادہ قسم مت کھاؤ اور صرف سچی ہی قسم کھاؤ، اس کی وجہ یہ ہے کہ بعض لوگ بہت زیادہ قسم کھاتے ہیں، چنانچہ وہ اہم اور غیر اہم سبھی معاملات میں اکثر قسم کھایا کرتے ہیں اور اس کی پرواہ نہیں کرتے ہیں کہ اللہ تعالی نے اپنے فرمان:

﴿وَ لَا تَجۡعَلُوا اللّٰہَ عُرۡضَۃً  لِّاَیۡمَانِکُمۡ اَنۡ تَبَرُّوۡا وَ تَتَّقُوۡا وَ تُصۡلِحُوۡا بَیۡنَ النَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ سَمِیۡعٌ  عَلِیۡمٌ﴾

(سورہ: بقرہ، آیت:224 )

( ترجمہ: اور اللہ کو اپنی قسموں کا نشانہ نہ بنالو کہ احسان اور پرہیزگاری اور لوگوں میں صلح کرنے کی قسم کرلو، اور اللہ سنتا جانتا ہے۔ کنز الایمان) میں ایسا کرنے سے منع کیا ہے۔

کیونکہ بہت زیادہ قسم کھانے سے انسان بسا اوقات اپنا وقار کھو بیٹھتا ہے اور پھر وہ ایسے اہم معاملات میں بھی لا پرواہی برتنے لگتا ہے جن میں بالکل لاپرواہی نہیں کرنا چاہیے جیسے کہ گواہی دینے، وعدہ پورا کرنے وغیرہ معاملات میں۔

اور مومن کی شان تو یہ ہے کہ وہ اپنے تمام اقوال، افعال اور احوال میں اپنے اللہ کے ساتھ، دوسروں کے ساتھ بلکہ اپنے بھی ساتھ ہمشیہ سچا رہتا ہے۔

 

پچھلا مضمون

اسی قسم کے مضامین

" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day