Search
عورت كى مىراث مرد كى مىراث سے نصف ہونے پر شبہ کا رد شبہ کا رد
یہ درست وصحیح ہے کہ قر آنی آیات میراث میں اللہ سبحانہ وتعالی کا یہ فرمان بھی ہے:
"(ایک) بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے (حصوں کے) برابر ہے۔"
لیکن اکثر لوگ جو مرد و عورت کی وراثت میں تفاوت وامتیاز کو لے کر اسلام میں عورت کی اہلیت پر شکوک وشبہات اٹھاتے ہیں وہ یہ نہیں جانتے ہیں کہ عورت کو مرد کے حصے کا آدھا حصہ ملنا کوئی ایسا قاعدہ وقانون نہیں ہے جو تمام مردوں وعورتوں کی وراثت کے تمام حالات کو شامل ہو، کیونکہ قرآن پاک نے یہ نہیں کہا ہے کہ :" اللہ وراثت کے بارے وارثوں کے لیے تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ ایک مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصوں کے برابر ہے." بلکہ اس نے یہ کہا کہ اللہ تمہیں تمہاری اولاد (کی وراثت) میں یہ حکم دیتا ہے کہ: " (ایک) مرد (بیٹے) کا حصہ دو عورتوں (بیٹوں) کے(حصوں کے) برابر ہے۔
جس کا واضح مطلب ہے کہ مرد وعورت کی وراثت میں یہ تفاوت وامتیاز کوئی قاعدہ عامہ نہیں ہے جوسبھی مردوں وعورتوں کی وراثت کی سبھی صورتوں کو شامل ہو، بلکہ یہ قانون وراثت کی چند مخصوص صورتوں وحالتوں میں جاری ہوتا ہے۔
میراث کے حوالے سے فلسفہ اسلام کی حقیقی فہم وبصیرت سے یہ حقیقت کو واضح ہو جاتی ہے کہ وارثوں کے حصوں میں تفاوت وامتیاز کا معیار ذکورت و انوثت نہیں ہے، بلکہ اس فلسفہ اسلامی کے پیچھے کچھ اور ہی حکمتیں اور مقاصد ہیں جو ان لوگوں پر مخفی ہیں جو میراث کے چند مسائل وحالات میں مرد وعورت کے حصوں میں تفاوت کو لے کر اسلام میں خواتین کی کمال اہلیت پر شکوک وشبہات اٹھاتے ہیں، کیونکہ اسلامی وراثت میں ورثاء (مرد یا عورت) کے حصوں میں تفاوت تین معیاروں پر مبنی ہے:
پہلا: وارث (مرد ہو یا عورت) اور مورث (میت) کے درمیان درجہ قرابت، چنانچہ قرابت جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی میراث میں حصہ بھی زیادہ ہوگا اور قرابت جتنی کم ہوگی اتنا ہی حصہ بھی کم ہوگی، اگرچہ وارث کی جنس کوئی بھی ہو۔
دوسرا: وارث نسل کی زندگی کا مرحلہ ومقام، چنانچہ وہ نسل جو ابھی زندگی کا سفر شروع کر رہی ہے اور اپنی ذمہ داریوں کے بوجھ کو اٹھانے کی تیاری میں ہے عام طور پر اس کا حصہ ان نسلوں سے زیادہ ہوتا ہے جو زندگی کا سفر طے کر چکی ہوتی ہیں اور ان کی ذمہ داریوں کے بوجھ ہلکے ہو چکے ہوتے ہیں بلکہ عام طور پر خود ان کی معاشی ذمہ داریاں بھی دوسروں کے ذمہ عائد ہو چکی ہوتی ہیں، چنانچہ اس میں بھی ورثاء کی جنس ذکورت وانوثت کا کوئی اعتبارکیا نہیں جاتا، چنانچہ میت کی بیٹی میت کی ماں سے زیادہ حصہ پاتی ہے جبکہ وہ دونوں ہی مؤنث ہیں، اسی طرح بیٹی کو میت کے باپ سے زیادہ حصہ ملتا ہے اگرچہ وہ بیٹی ابھی شیرخواری کی حالت میں ہو اور اپنے باپ کی شکل بھی نہ پہچانتی ہو، اگرچہ میت کا باپ ہی اس (میت یعنی اپنے بیٹے) کی دولت کا ذریعہ وسبب ہو جس میں سے اس بیٹی کو نصف ملتا ہے، اسی طرح بیٹا بھی اپنے والد سے زیادہ میراث پاتا ہے جبکہ وہ دونوں ہی مذکر و مرد ہیں، اور فلسفہ میراث اسلامی کے اس معیار میں بہت سی اور بھی حکمتیں اوراعلی مقاصد ہیں جو اکثر لوگوں پر مخفی ہیں، چنانچہ یہ ایسا معیارہے جس میں ذکورت و انوثت کا کوئی دخل نہیں ہے۔
تیسرا: وارث کے اوپر دوسروں کی مالی ذمہ داری جسے شریعت اسلامیہ اس کے اوپر واجب قرار دیتی ہے، یہی واحد ایسا معیار ہے جس سے مرد وعورت کے حصوں میں تفاوت وامتیاز ہوتا ہے، لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ اس تفاوت کی وجہ سے خواتین پرظلم وزیادتی ہو یا ان کے حقوق میں کوئی کمی واقع ہو، چنانچہ جب سبھی ورثاء ایک ہی درجہ قرابت کے ہوں، اور سبھی زندگی کے ایک ہی مرحلہ ومقام پر ہوں مثال کے طور پر میت کے بیٹے اور بیٹیاں، تو اب ایسی صورت میں شریعت ان سے متعلق مالی ذمہ داریوں کو دیکھ کر میراث تقسیم کرتی ہے جس کی وجہ سے حصوں میں تفاوت ہو جاتا ہے، لیکن یہ تفاوت جنس ونوع کی بنیاد پر نہیں ہوتا بلکہ مالی ذمہ داری ومسؤلیت کی بنیاد پر ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ قرآن پاک نے مرد وعورت کے حصوں کے تفاوت وامتیاز کو مطلق بیان نہیں کیا بلکہ اسے صرف صورت مذکورہ ہی کے ساتھ خاص کیا، چنانچہ آیت کریمہ میں ارشاد ہوا:
ترجمہ:" اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تمہاری اولاد (کی وراثت) کے بارے میں، بیٹے کا حصہ دو بیٹوں کے برابر ہے۔ "
یہ ارشاد نہیں ہوا : اللہ تمہیں تمام وارثوں (یعنی سبھی عورتوں اور مردوں کی وراثت ) میں حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے۔
اور خاص طور پر اس صورت میں اس تفاوت و امتیاز کی حکمت یہ ہے کہ مرد کے اوپرعورت یعنی اس کی بیوی اور ان دونوں کے بچوں کی کفالت کی ذمہ دار ہوتی ہے جبکہ وارث عورت یعنی اس مرد کی بہن (اگر شادی شدہ ہے تو اس کی ) اور اس کے بچوں کی ذمہ داری خود اس کے ساتھ والے مرد یعنی اس کے شوہر کے اوپر ہوتی ہے، (اور اگر اس کی بہن شادی شدہ نہیں ہے تو کبھی کبھی اس کی بھی ذمہ داری اس مرد یعنی اس کے بھائی کے اوپر آ جاتی ہے) اس طرح سے وہ عورت - اپنے بھائی کے مقابلے میں نصف پانے کے با وجود بھی - اپنے بھائی سے زیادہ فائدہ میں رہتی ہے، کیونکہ اس کی پوری میراث محفوظ و جمع رہتی ہے جس سے وہ اپنی زندگی کے مشکل حالات میں فائدہ اٹھا سکتی ہے، چنانچہ اس صورت میں مرد وعورت کے حصوں کے تفاوت و امتیاز میں یہ ایک عظیم حکمت ہے جس سے اکثر لوگ غافل ہیں۔
نیز ملاحظہ ہو کہ ایک طرف تو ورثاء (مرد وعورت) کے حصوں میں تفاوت وامتیاز کا یہ سابقہ فلسفہ اسلامی ہے جو آپ نے دیکھا جس سے اکثر انتہا پسند جماعتیں، دشمنانِ اسلام اور ملحدین غافل ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ اسلامی میراث میں مرد وعورت کے حصوں کے درمیان اس جزوی تفاوت سے اسلام میں عورت کی کمال اہلیت ختم ہو جاتی ہے، اور دوسری طرف اگر ہم میراث کے مسائل و حالات کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں ایک ایسی حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے جس سے معترضین کے عقلیں دنگ رہ جاتی ہیں، اور وہ حقیقت یہ ہے کہ :
1:صرف چار صورتیں ایسی ہیں جن میں عورت کا حصہ مرد کے حصہ سے آدھا ہوتا ہے۔
2: جبکہ ان صورتوں سے دو گنا صورتیں ایسی ہیں جن میں عورت کو مرد کے برابر حصہ ملتا ہے۔
3: اور دس یا اس سے زائدصورتیں ایسی ہیں جن میں عورت کو مرد سے زیادہ حصہ ملتا ہے۔
4: جبکہ کچھ ایسی صورتیں بھی ہیں جن میں عورت کو تو وراثت ملتی ہے لیکن مرد محروم رہتا ہے۔
یعنی صرف چار صورتیں ایسی ہیں جن میں عورت کو مرد کے حصہ سے آدھا حصہ ملتا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں تیس سے زائدصورتیں ایسی ہیں جن عورت کو مرد کے برابر یا اس سے زیادہ حصہ ملتا ہے یا عورت کو تو ملتا ہے لیکن مرد کو نہیں ملتا ہے۔( )
چنانچہ یہ نتیجہ ہے میراث کے مسائل و حالات کے جائزہ کا جن کی بنیاد اسلامی معیاروں پر ہے جنہیں اسلامی فلسفہ میراث نے متعین کیا ہے اور جن کی بنیاد ذکورت انوثت پر نہیں ہے جیسا کہ کچھ ناواقف لوگ سمجھتے ہیں۔
لہذا مذکورہ وضاحت کے بعد اسلام کی مقرر کردہ عورت کی کمال اہلیت پر کئے گئے شبہات میں سے ایک شبہ کا ازالہ ہو جاتا ہے، الحمد لله۔