1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. میں دل کا حال نہیں جانتا یا عاقبت کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے

میں دل کا حال نہیں جانتا یا عاقبت کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے

1131 2020/06/25 2024/12/18
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी

حضرت عبد الرحمن بن ابی بکرہ اپنے والد ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ  ﷺ کے سامنے کسی شخص کی تعریف کی، تو آپ ﷺ  نے کئی بار یہ ارشاد فرمایا: " افسوس! تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی، تو نے اپنے بھائی کی گردن کاٹ دی۔" پھر آپ ﷺ  نے فرمایا: " تم میں سے کوئی جب لا محالہ اپنے بھائی کی تعریف کرنا چاہے تو یوں کہے: میں فلاں کو ایسا سمجھتا ہوں ، اور اللہ تعالی خوب جانتا ہے اور میں دل کا حال نہیں جانتا یا عاقبت کا علم تو اللہ تعالی ہی کو ہے، میں سمجھتا ہوں کہ وہ  ایساایسا ہے اگر اس کا حال جانتا ہو تو۔"

حدیث پاک میں وارد الفاظ " لَا أُزَكِّي عَلَى اللَّهِ أَحَدًا " کے معنی ہیں کہ میں کسی کے انجام اور دل کی بات نہیں جانتا کیونکہ یہ مجھ سے مخفی ہیں۔

مکارم اخلاق کا تقاضہ ہے کہ انسان اپنے بھائی کے حق وفضل کو جانے اور جس کا وہ اہل ہے اس کی تعریف کرے، تعریف کرنا ایک قسم کا شکر ہے، بلا شبہ تعریف کا نفوس پر بڑا اثر پڑتا ہے، اس سے احساسات ابھرتے ہیں جیسا کہ اس سے افعال خیر کی جانب رغبت پیدا ہوتی ہے، لیکن تعریف کے اثر کے لحاظ لوگ کئ طرح کے ہوتے ہیں:

چنانچہ کچھ تو تعریف کی وجہ  سےمغرور اور متکبر ہو جاتے ہیں۔

اور کچھ تعریف کی وجہ سے اعلی مقاصد کے حصول میں سستی کرنے لگتے ہیں اور جس حالت پر وہ ہوتے ہیں بس اسی کو کافی سمجھتے ہیں اور وہ اپنے دل میں کہتے ہیں: " ہم جس حال میں وہی کافی ہے، کیونکہ ہم اس مرتبے کو پہونچ گئے کہ لوگ ہماری تعریف کرنے لگے ہیں اور یہی ہم چاہتے تھے۔"

اور کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جب ان کی تعریف کی جائے تو وہ شرماتے ہیں اور بہت حرج محسوس کرتے ہیں۔

اور کچھ وہ ہوتے ہیں کہ جب ان کی تعریف کی جائے تو ان کے ایمان میں اضافہ ہو جاتا ہے اور مزید اعمال خیر کرنے میں سبقت کرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ وہ ویسے ہی ہو جائیں جیسا کہ لوگ ان کے بارے میں گمان کرتے ہیں۔ (اور یہی ان سب میں سب سے اچھے لوگ ہیں)

 تعریف کرنا جیسا کہ ہم نے پہلے بیان کیا ایک طرح کا شکر ہے جیسا کہ یہ اچھائی وخوبی کا اعتراف کرنا ہے، جب کسی میں کوئی خوبی ہو تو اس کا اعتراف کرنا چاہیے اور اس پر اس کی تعریف کرنا چاہیے بشرطیکہ اس میں مبالغہ آرائی سے کام نہ لیا جائے۔

بسا اوقات کسی دنیوی غرض کے حصول کے لیے جھوٹی تعریف کی جاتی ہے جو کہ نہ شرعی وعقلی طور پر جائز ہے اور نہ عرفی طور پر۔

نبی کریم ﷺ نے بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ان کے حسن اسلام اور قول وفعل میں اللہ عزوجل کے لیے ان اخلاص کی وجہ سے تعریف فرمائی اور انہیں جنت کی بشارت دی۔

ایک سچا مومن اپنی ہر بات میں میں مخلص وسچا ہوتا ہے، اس کی حجت ودلیل قوی اور واضح ہوتی ہے، جیسا اس کا ظاہر ہوتا ہے ویسا ہی اس کا باطن ہوتا ہے، وہ گرگٹ کی طرح رنگ نہیں بدلتا ہے اور نہ ہی وہ دو رخہ ہوتا ہے۔

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day