1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. کوئی بیماری (اللہ کی مرضی کے بغیر) اڑ کر نہیں لگتی

کوئی بیماری (اللہ کی مرضی کے بغیر) اڑ کر نہیں لگتی

877 2020/06/15 2024/03/28
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اللہ کے رسول ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: " کوئی بیماری اڑ کر نہیں لگتی، اور بدشگونی لینا،  الو کا منحوس ہونا اور ماہ صفر کا منحوس ہونا  کوئی چیز نہیں ہے،  البتہ جذامی شخص (کوڑھی) سے ایسے بھاگو جیسا کہ شیر سے بھاگتے ہو" ۔

نبی کریم ﷺ کو مکارم اخلاق کی تعلیم وتکمیل اور لوگوں کے درمیان رائج صحیح عادتوں اور رسموں ورواجوں کی تائید وحمایت اور باطل عادتوں اور رسموں ورواجوں کو ختم کرنے کے  لیے مبعوث فرمایا گیا، چنانچہ نبی کریم ﷺ نے عرب وعجم کی ان باطل خرافات کو ختم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جو ان میں باپ داداؤں سے چلی آ رہی تھیں اور وہ انہیں صحیح سمجھتے تھے، انہیں خرافات میں سے بد شگونی لینا، الو اور ماہ صفر کو منحوس سمجھنا بھی ہیں۔

بد شگونی لینا: یعنی بد فالی لینا اور منحوس سمجھنا،  اس کو عربی میں " طِیَرَۃٌ" کہتے ہیں، یہ عربی لفظ "تَطَيَّرَ الطَیْرُ" سے ماخوذ ہے جس کے معنی ہیں پرندہ اڑانا ہیں، عرب کے لوگ کسی کام کے کرنے سے پہلے طائِر (یعنی پرندے) کو اُڑا کر اس سے فال لیتے تھے، پرندے کے دائیں  طرف اُڑنے سے اچھی فال لیتے اور اس کام کو کرتے اور بائیں  طرف اُڑنے اور کووں  کے کائیں  کائیں  کرنے سے بَدشگونی ( بُری فال) لیتے تھے اور اس کام کو کرنے سے رک جاتے تھے۔

حدیث پاک میں لفظ" ها متہ" آیا ہے اس کا مطلب ہے (الو کا منحوس سمجھنا اور کہا جاتا ہے) کہ اہل عرب یہ گمان کرتے تھے کہ جب کسی کو قتل کر دیا جائے تو مقتول کی قبر سے ہامہ نامی پرندہ (الو) نکلتا ہے اور اس وقت رہتا ہے جب تک کہ اس کے گھر والے قاتل کو مار کر اس کا بدلہ نہ لے لیں۔

اور لفظ" صفر" کے بارے میں علماء کا بہت اختلاف ہے، بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد صفر کا مہینہ ہے کہ اہل عرب ماہ صفر کو منحوس سمجھتے تھے جبکہ کچھ علماء کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ سانپ ہے جو انسان کے پیٹ میں ہوتا ہے جب انسان کو بھوک لگتی ہے تو یہ سانپ کہتا ہے: مجھے کھلاؤ مجھے کھلاؤ۔

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day