Search
روزہ ایک ڈھال ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا:" اللہ عزوجل فرماتا ہے: انسان کا ہر( نیک) عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔" اور روزہ (گناہوں اور دو زخ سے بچنے کے لیے) ایک ڈھال ہے، جب کوئی روزے سے ہو تو اسے فحش گوئی نہ کرے اور نہ ہی شور مچائے، اگر کوئی شخص اس کو گالی دے یا اس سےلڑنا چاہئے تو اس کا جواب صرف یہ ہو کہ میں ایک روزہ دار ہوں، اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد (ﷺ) کی جان ہے! روزہ دار کے منہ کی بو اللہ کے نزدیک مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ بہتر ہے، اور روزہ دار کو دو خوشیاں حاصل ہیں: (ایک) جب وہ افطار کرتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسرے) جب وہ اپنے رب سے ملاقات کرے گا تو اپنے روزے کا ثواب پاکر خوش ہوگا۔"
یہ حدیث قدسی ہے کہ جسے نبی کریم ﷺنے اپنے رب عزوجل سے بیان فرمایا ہے۔
اس طرح کی حدیث پاک میں ایک الگ طرح کی عظمت وجلالت ہوتی ہے کہ جب مومن اس طرح کی حدیث پاک کو سنتا ہے اور اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ ایک ایسی حدیث پاک ہے کہ جسے رسول کریم ﷺنے اپنے رب کی جانب منسوب فرمایا ہے تو وہ اپنے دل میں اس کی عظمت وجلالت کو محسوس کرتا ہے، نیز اس طرح کی اسناد سے حدیث پاک کی اور بھی توثیق ہو جاتی ہے اور اس کی شان وشوکت میں اضافہ ہو جاتا ہے جیسا کہ اس کا دل وجذبات پر گہرا اثر پڑتا ہے۔
اللہ تعالی نے روزے کو اپنی جانب منسوب کیا چنانچہ ارشاد فرمایا: "كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ."(یعنی انسان کا ہر( نیک) عمل خود اسی کے لیے ہے مگر روزہ کہ وہ خاص میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔")
لہذا اس تعبیر سے ہمیں روزے کی عظمت وجلالت کا پتہ چلتا ہے۔
لیکن اس تعبیر سے یہاں پر ایک سوال اٹھتا ہے جس کا جواب دینا یہاں ضروری ہے، اور وہ سوال یہ ہے کہ اللہ نے روزے کو اپنی جانب منسوب کیا اور دیگر تمام اعمال کو انسان کی جانب منسوب کیا حالانکہ روزہ بھی انسان کا ہی عمل ہے، تو ایسا کیوں؟ اور کیا اس حدیث پاک میں مذکور انسان کے عمل سے مراد حسنات وسیئات (نیکیاں اور بدیاں) دونوں ہیں یا صرف نیکیاں ہیں؟ اور روزے کو اللہ نے اپنی جانب منسوب کیا، تو کا کیا تو اس کا کیا فائدہ ہے؟ اور اللہ کے فرمان: اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔" کا کیا مطلب ہے، کیونکہ ہر عمل کا بدلہ اللہ ہی دے گا؟ اور ان کے علاوہ بھی بہت سے سوالات ہیں جو اس حدیث پاک سے ایک مسلمان کے ذہن میں اٹھتے ہیں، چنانچہ فکری نکات پر مشتمل اس سوال کے جواب خلاصہ مندرجہ ذیل نکات میں ہے:
(1) حدیث پاک میں انسان کے عمل سے مراد صرف حسنات (نیکیاں) ہیں، کیونکہ اس سے روزہ کو مستثنیٰ کیا گیا ہے اور روزہ ایک نیک عمل ہے۔
(2) روزے کا اللہ کے لیے ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اللہ کے یہاں لکھا جاتا ہے اور اس کا اجر وثواب جتنا گنا اللہ چاہے گا اسے عطا فرمائے گا جیسا کہ حضرت ابوہریرہ سے مروی صحیح مسلم کی ایک حدیث پاک میں اس کی صراحت موجود ہے، کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:
"كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ يُضَاعَفُ الْحَسَنَةُ عَشْرُ أَمْثَالِهَا إِلَى سَبْعمِائَة ضِعْفٍ. قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَّا الصَّوْمَ فَإِنَّهُ لِي وَأَنَا أَجْزِي بِهِ يَدَعُ شَهْوَتَهُ وَطَعَامَهُ مِنْ أَجْلِي".
ترجمہ: '' انسان کی ہر نیکی دس گنا سے سات سو گنا تک بڑھادی جا تی ہے، اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے: سوائے روزے کے، کیونکہ وہ میرے لئے خاص ہے، اور میں ہی اس کا بد لہ دوں گا، (اس لیے کہ) آدمی اپنی خواہش اور کھانا میرے لیے چھوڑ دیتا ہے۔"
(3) روزے کی نسبت اللہ نے اپنی جانب کی، چنانچہ بعض علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس کے وجہ یہ ہے کہ، کیونکہ روزہ ایک ایساعمل ہے جس میں سے دکھاوا نہیں ہوتا بخلاف دیگر اعمال کے، چنانچہ بندہ وہ عبادت کی نیت سے سچائی اور خلوص کے ساتھ اللہ تعالی کے لیے صبح صادق سے لے کر طلوع آفتاب تک کھانے پینے اور جماع کو چھوڑتا ہے، حالانکہ کہ تنہائی اور اکیلے میں اگر وہ چاہے تو کھا پی سکتا ہے جیسا کہ وہ جماع کرکے اپنی شہوت بھی پوری کر سکتا ہے لیکن عام طور پر کوئی بھی بندہ ایسا نہیں کرتا ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس کے روز ہ لوگوں کے دکھاوے کے لیے نہیں ہوتا ہے، بلکہ صرف اللہ کے لیے ہوتا ہے۔
اور اللہ تعالی کے فرمان: " وَأَنَا أَجْزِي بِهِ" (یعنی اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا۔) سے روزے کے اجر وثواب کی کثرت وزیادتی کی جانب اشارہ ہے، کیونکہ اس کے ثواب کی ذمہ داری خود اللہ نے اپنے ذمہ کرم پر لی ہے۔
لہذا اس حدیث پاک میں مذکور تعبیرات سے پتہ چلتا ہے کہ اگر روزہ خلوص کے ساتھ رکھا جائے اور اس میں تمام چھوٹے اور بڑے گناہوں سے بچا جائے تو وہ سب سے اشرف ومعزز اور بہتر عبادت ہے۔