Search
اے اللہ! میں پریشانی اور غم سے تیری پناہ چاہتا ہوں
سیدنا ابو سعید خدری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ایک روز مسجد میں تشریف لائے تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک انصاری آدمی ہے جس کا نام ابو امامہ تھا، آپ ﷺ نے فرمایا: ” اے ابوامامہ! کیا بات ہے کہ میں تمہیں مسجد میں دیکھ رہا ہوں اور نماز کا وقت بھی نہیں ہے؟ “ انہوں نے عرض کی : اے اللہ کے رسول! مجھے غموں اور قرضوں نے گھیر رکھا ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: " کیا میں تمہیں ایسے کلمات نہ سکھا دوں کہ جنہیں اگر تم پڑھو تو اللہ تعالیٰ تمہارے غم دور کر دے گا اور تمہارے قرضے ادا کر دے گا۔" حضرت ابو امامہ کہتے ہیں کہ میں نے کہا: " کیوں نہیں، اے اللہ کے رسول! تو آپ ﷺ نے فرمایا: " صبح و شام یہ کلمات پڑھا کرو " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ الْهَمِّ وَالْحَزَنِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْعَجْزِ وَالْكَسَلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ الْجُبْنِ وَالْبُخْلِ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ غَلَبَةِ الدَّيْنِ وَقَهْرِ الرِّجَالِ"(ترجمہ: اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں پریشانی اور غم سے، عاجز رہ جانے اور سستی سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں بزدلی اور بخیلی سے، اور تیری پناہ چاہتا ہوں قرضے اور ظالموں کے غلبے سے ۔ “ سیدنا ابوامامہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یہ دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے میری پریشانیاں دور کر دیں اور میرے قرضے بھی ادا فرما دیئے۔
یعنی اے اللہ پاکی! تیری ہی ذات سے بھروسہ رکھتا ہوں، رنج وغم کی برائی سے تیری عظمت وجلالت کی پناہ میں آتا ہوں، اور تیری حفاظت کے ذریعہ ان سے حفاظت چاہتا ہوں، اور تجھ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ تو اپنی قدرت کے ذریعہ رنج وغم اور ان کے سبب کو میرے دل سے دور فرما، اور میرے سینے کو نور ایمان سے بھردے تاکہ شیطان اپنے وسوسوں اور شکوک وشبہات سے مجھے غم میں نہ ڈالے اور اپنی ناپاک کوششوں سے میرے ایمان کو خراب نہ کرے، اور اے اللہ! اس کے علاوہ ہر وہ چیز مانگتا ہوں جو تیرے فیصلے اور تقدیر سے راضی رہنے میں میری مدد کرے۔
نبی کریم ﷺ کے پیارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجدوں اور گھروں میں خلوت وتنہائی پسند کرتے تھے تاکہ وہ اپنے فرصت کے اوقات میں ذکر واذکار کریں، دعائیں کریں اور اللہ کی مخلوقات میں غور وفکر کریں، ان میں سے جب کسی کو کوئی غم لاحق ہوتا تو نبی کریم ﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے نماز کی طرف دوڑتے، کیونکہ بندہ اپنے رب سے سب سے زیادہ قریب سجدہ کی حالت میں ہوتا ہے۔
نبی کریم ﷺ نے اس حدیث پاک میں دعا کو کلام کہا، اس سے اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ دعا دل کی گہرائیوں سے ہونا چاہیے اور اس یقین کے ساتھ ہو کہ دعا قبول ہوگی، گویا دعا کرنے والے کو ایسا لگنا چاہیے کہ وہ اپنے دل، اپنی زبان بلکہ اپنے پورے وجود سمیت اپنے پروردگار سے بات کر رہا ہے۔
ہم یہاں پر عرب زبان کے تین الفاظ یعنی: الْهَمّ، الْحُزن اور الْغَم میں فرق بیان کرنا چاہتے ہیں جو مندرجہ ذیل ہے:
الْهَمّ: یہ آئندہ واقعہ ہونے والے معاملہ یا خطرے سے تعلق رکھتا ہے یعنی اگر کوئی ایسا مشکل امر پیش آنے والا ہو جس کے کرنے یا نہ کرنے سے انسان کو رنج ہو تو اسے عربی میں "الْهَمّ" کہتے ہیں یعنی آئندہ مصبیت کے خطرے کو"الْهَمّ" کہا جاتا ہے۔
الْحُزن: گزرے ہوئے نا پسندیدہ واقعہ یا معاملہ پر انسان کے دل میں جو رنج وملال ہوتا ہے اسے عربی زبان میں "الْحُزن" کہتے ہیں، جیسے کہ کسی عزیز یا رشتہ دار کے فوت ہوجانے کا رنج یا کچھ قیمتی چیز یا مال کھو جانے کا رنج وملال، چنانچہ یہ گزرے ہوئے معاملہ میں سوچنے سے پیدا ہوتا ہے۔
الْغَم: اس مصیبت کو کہتے ہیں جو انسان پر کئی وجہوں سے آتی ہے، لہذا اس کی وجہ سے انسان پر ھم وحزن دونوں جمع ہوجاتے ہیں، چنانچہ ان سے نجات کا اسے کوئی راستہ سمجھ نہیں آتا ہے۔