1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے

میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے

1588 2020/06/24 2024/12/18
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ان حدیثوں میں بیان فرمایا جو آپ اپنے اللہ تعالی سے بیان کرتے ہیں (یعنی حدیث قدسی میں ) کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :

 ’’اے میرے بندو! میں نے ظلم کو اپنے اوپر حرام قرار دیا ہے (یعنی میں ظلم سے پاک ہوں) اور تم پر بھی اسے حرام کیا ہے، پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو۔  اے میرے بندو! تم سب گمراہ ہو سوائے اس شخص کے جس کو میں ہدایت دوں پس تم مجھ سے ہدایت طلب کرو، میں تمہیں ہدایت دوں گا۔  اے میرے بندو! تم سب بھوکے ہو سوائے اس کے جسے میں کھلاؤں پس تم مجھ سے کھانا (رزق) مانگو، میں تمہیں کھلاؤں گا۔  اے میرے بندو! تم سب ننگے ہو(یعنی ستر پوش کے لئے کپڑے کے محتاج ہو) سوائے اس کے جسے میں پہناؤں پس تم مجھ سے کپڑے مانگو، میں تمہیں پہناؤں گا۔ اے میرے بندو! تم دن رات خطائیں کرتے ہو اور میں تمہاری خطائیں بخشتا ہوں پس تم سب مجھ سے بخشش مانگو میں تمہیں بخشوں گا۔ اے میرے بندو! تم میرا نقصان نہیں کر سکتے اور نہ مجھے کوئی فائدہ پہنچا سکتے ہو۔  اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے (سبھی لوگ) اور انسان اور جن، سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں بڑا پرہیزگار شخص ہو تو اس سے میری سلطنت میں کچھ اضافہ نہ ہو گا، اور اگر تمہارے اگلے اور پچھلے (سبھی لوگ) اور انسان اور جن، سب ایسے ہو جائیں جیسے تم میں سے سب سے بڑا بدکار شخص ہو تو اس سے میری سلطنت میں سے کچھ نقصان نہ پہنچے گا۔  اے میرے بندو! اگر تمہارے اگلے اور پچھلے (سبھی لوگ) اور انسان اور جن، سب ایک میدان میں کھڑے ہوں، پھر مجھ سے مانگنا شروع کریں اور میں ہرایک کو جو وہ مانگے دیدوں، تب بھی میرے پاس جو کچھ ہے وہ کم نہ ہو گا مگر اتنا جیسے سمندرمیں سوئی ڈبو کر نکال لو (تو سمندر کا پانی جتنا کم ہو تا ہے اتنا بھی میرا خزانہ کم نہ ہو گا، اس لیے کہ دریا کتنا ہی بڑا ہو آخر محدود ہے اور میرا خزانہ بے انتہا ہے۔ پس یہ صرف  سمجھانے کے لے ایک مثال ہے)۔ اے میرے بندو! یہ تو تمہارے ہی اعمال ہیں جن کو تمہارے لیے شمار کرتا ہوں، پھر تمہیں ان اعمال کا پورا بدلہ دوں گا، پس جو شخص بہتر بدلہ پائے تو چاہیے کہ

اللہ کا شکر ادا کرے (کہ اس کی کمائی بے کار نہ گئی) اور جو برا بدلہ پائے تو اپنے آپ کو ملامت کرے (کہ اس نے جیسا کیا ویسا پایا)۔‘‘

یہ حدیث قدسی سخت لہجے والی ہے اور لوگوں پر قوی حجت وواضح دلیل ہے، اس میں غور کرنے والے لے غیر سے کفایت، نصیحت وعبرت چاہنے والے کے لیے نصیحت وعبرت، ہدایت ورہنمائی تلاش کرنے والے کے لیے ہدایت ورہنمائی، بشارت وخوشخبری کے طلبگار کے لیے بشارت وخوشخبری ہے نیز جو اچھائی چاہنے والا ہے یا شکر گزار ہونا چاہتا ہے اس کے لیے اس حدیث پاک میں تمام قسم کی اچھائی وبھلائی موجود ہے۔

 اس حدیث کے معنی کو اللہ رب العزت نے اپنے پیارے نبی ﷺ پر نازل فرمایا اور آپ ﷺ نے اسے اچھوتے انداز کے ذریعہ اپنے الفاظ کے  ذریعے بیان فرمایا، لہذا حدیث قدسی وہ حدیث ہے جس میں نبی کریم ﷺ نے صراحتاً یہ فرمایا ہو:"قالَ اللَّهُ " یا "يَقُولُ اللَّهُ" یعنی" اللہ نے فرمایا" یا " اللہ فرماتا ہے"۔

اس حدیث پاک میں ایک خوشی کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالی نے اپنے بندوں کو دس بار یہ کہہ کر مخاطب فرمایا " اے میرے بندو! " یہ ایک ایسا خطاب ہے جس میں مومن پیار ومحبت وقربت ونزدیکی اور الفت ومانوسیت محسوس کرتا ہے۔

نیز یہ بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ اس خطاب میں عزائم کو تقویت دی گئی ہے، ہمتوں وحوصلوں کو بلند کیا گیا ہے، قول وفعل میں اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ خلوص سے کام لینے، صرف اسی کی طرف رجوع کرنے، ہر چیز میں اسی سے اپنی محتاجی بیان کرکے اسی سے مانگنے، اور تمام امور میں اس پر بھروسہ کرنے اور اس کے فضل وکرم سے امید رکھنے پر ابھارا گیا ہے۔

چونکہ خدا تعالی نے سخت طور پر اپنے آپ سے ظلم کی نفی فرمائی ہے (کیونکہ وہ ظلم سے پاک ومنزہ ہے) اسی وجہ سے اس نے لوگوں کو بھی ظلم سے بچنے اور ظلم کرنے والوں سے اور اس کے اسباب سے دور رہنے کا حکم دیا ہے، چنانچہ اس نے ارشاد فرمایا:  "وَجَعَلْتُهُ بَيْنَكُمْ مُحَرَّمًا فَلَا تَظَالَمُوا"  یعنی اور تم پر بھی اسے (یعنی ظلم کو ) حرام کیا ہے، پس تم آپس میں ایک دوسرے پر ظلم مت کرو، یعنی جہاں تک ہو سکے کوئی بھی شخص کسی بھی معاملہ میں کسی پر بھی  کسی طرح کا ظلم نہ کرے

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day