1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. عمل کرو اور بھروسہ کرکے بیٹھ مت جاؤ

عمل کرو اور بھروسہ کرکے بیٹھ مت جاؤ

1189 2020/06/25 2024/11/15
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी Español

حضرت علی بن طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ کے نبی ﷺ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور آپ کے ہاتھ میں ایک عود کی لکڑی تھی، آپ ﷺ نے زمین کی طرف سر جھکایا، پھر کچھ دیر بعد سر مبارک کو اٹھا کر ارشاد فرمایا: " تم  میں سے ہر کسی کا جنت یا جہنم میں ٹھکانہ لکھ دیا گیا ہے"۔

تو آپ ﷺ کی بارگاہ میں عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہم اسی لکھے ہوئے (یعنی تقدیر) پر بھروسہ نہ کرلیں؟

آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: نہیں، بلکہ عمل کرو، اور بھروسہ کرکے بیٹھ مت جاؤ، کیونکہ ہر شخص کو ان اعمال کی توفیق دی   گئی ہے جن کے لئے وہ پیدا کیا گیا ہے، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:

ترجمہ: " تو وہ جس نے دیا اور پرہیزگاری کی، اور سب سے اچھی کو سچ مانا، تو بہت جلد ہم اسے آسانی مہیا کردیں گے،  اور وہ جس نے بخل کیا اور بےپرواہ بنا، اور سب سے اچھی کو جھٹلایا، تو بہت جلد ہم اسے دشواری مہیا کردیں گے"۔ (کنز الایمان)

قضا وقدر پر ایمان اللہ عزوجل پر ایمان کے ارکان میں سے ایک رکن ہے، پس جس کا قضا وتقدير الہی پر ایمان نہ ہو تو وہ اللہ عزوجل کی وحدانیت اور پر ایمان نہیں رکھ سکتا ہے اور نہ ہی اس کی صفات کمالیہ پر ایمان لا سکتا ہے، کیونکہ قضا اور قدر ان امور غیبہ میں سے جنہیں صرف اللہ ہی جانتا ہے، اس کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ہے۔

قضائے الہی کا مطلب ہے کہ: جو بھی اللہ نے پیدا کیا ہے اس میں عدل وانصاف سے اس کا حکم چلنا۔

اور تقدیر الہی کا مطلب ہے کہ: جو بھی ہو چکا ہے، اور ہو رہا ہے اور ہونے والا ان سب چیزوں کا اللہ کو علم ہونا، پس اللہ نے اپنے علم کے مطابق ہر چیز کو اس کے حساب سے رکھا ہے، چنانچہ اس کے فیصلے کو کوئی رد کرنے والا نہیں ہے اور نہ ہی اس کے حکم کو کوئی ٹالنے والا ہے، اور جو اس نے مقرر کیا ہے اسے کوئی نہیں جانتا ہے، کسی کو بھی قضا اور تقدیر کے معاملے میں پڑ کر بحث وغیرہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ ان میں بحث کرنا ہلاکت کا باعث ہے مزید یہ کہ ان کی حقیقت کا ادراک انسانی عقل نہیں کر سکتی ہے۔

بے شک اللہ عزوجل تمام مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے ہی ان کے معاملات کو مقدر کر  چکا ہے، پس جو اس نے ان کے لیے مقدر کیا ہے وہ ہو کر رہے گا، قلم اٹھا لیے گئے ہیں اور صحیفے خشک ہو چکے ہیں۔

" عمل کرو، اور ہر شخص کو اس کی آسانی دی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔" یعنی ارادہ الہی سے اسے اس جنت یا دوزخ کے لیے آسانی دے دی گئی ہے جس کے لیے وہ پیدا کیا گیا ہے۔

بندے کے اوپر صرف کوشش کرنا ہے مقاصد کو پا لینا نہیں، کیونکہ اے میرے پیارےمسلمان بھائی! تمہیں یہ اچھی طرح جاننا چاہیے کہ اسباب اللہ رب العزت کے قبضے میں ہیں، تو جو چاہے وہ اللہ سے دعا کرے کہ اللہ اسے ان اسباب کے حصول کی توفیق دے، کیونکہ جو اللہ سے سچے دل سے دعا کرتا ہے  اللہ اس کی دعا قبول فرماتا ہے اور جو اس سے مانگتا ہے اللہ اسے نوازتا ہے۔

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day