Search
نجات کا راستہ
عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! نجات کی کیاصورت ہے؟ آپ نے فرمایا: " اپنی زبان کو قابو میں رکھو، اپنے گھرکی وسعت میں مقیدرہو اور اپنی خطاؤں پر روتے رہو"۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جو نبی کریم ﷺ سے وعظ ونصیحت سنتے تھے اس کی وجہ سے ان کے دلوں میں بہت زیادہ عذاب الہی کا خوف بیٹھ گیا تھا، یہاں تک کہ کچھ کو تو شدت خوف کی وجہ سے لگتا تھا کہ جہنم کی آگ ان کے سامنے ہے اور وہ اپنی ماتھے کی نگاہوں سے اسے بھڑکتے ہوئے دیکھ رہے ہیں گویا کہ گناہوں کی کثرت اور طاعت الہی میں کوتاہی کی وجہ سے انہیں اس آگ کی طرف لے جایا جا رہا ہو۔
اسی وجہ سے وہ لوگ عذاب الہی سے نجات کے طریقوں کے بارے میں پوچھتے تھے اور آخرت سے پہلے ہی دنیا میں وہ یہ کہتے تھے کہ اس سے بچنے کی کیا صورت ہے؟
حالانکہ وہ یہ بھی پورے طور سے جانتے تھے کہ اللہ کے علاوہ کوئی پناہ گاہ نہیں ہے اور اس کی مغفرت وبخشش ہی اس کے قہر وغضب سے بچنے کا ذریعہ ہے۔
مذکورہ وصیت سے ہمیں تین چیزیں حاصل ہوتی ہیں:
(1) پہلی چیز یہ ہے کہ سب سے پہلا کام جو مسلمان کو کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ وہ جھوٹ، غیبت، چغل خوری، تہمت، اور گالی گلوچ وغیرہ بری باتوں سے اپنی زبان کو روکے۔
(2) دوسری چیز یہ ہے کہ زبان دیکھنے میں تو بہت چھوٹی سی چیز ہے لیکن سب سے زیادہ گناہ اسی سے ہوتے ہیں، لہذا جب تک کوئی اسے قابو میں اورعقل کے پیچھے نہ رکھے گا اس وقت تک یہ غلط بیانی سے باز نہیں آئے گی۔
(3) تیسری چیز یہ ہے کہ زبان کی حفاظت ایک ایسی چیز ہے جسے صرف مومن ہی کر سکتا ہے، چنانچہ ایک سچا مومن ہی ہمشیہ اپنی زبان کو اپنے قابو میں رکھتا ہے اور بنا سوچے سمجھے کوئی بات نہیں کرتا ہے۔