Search
محمد ﷺحق گو اور انصاف پسند شخص تھے
وہ حق و سچائی اور عدل وانصاف سے محبت کرتے تھے اور اسی کے مطابق فیصلے بھی کرتے تھے، وہ اس بارے میں ملامت کرنے والے کی ملامت کی پرواہ نہیں کرتے تھے، اور نہ ہی وہ اس معاملہ میں کسی کے جاہ و منصب، اس کے مال و دولت دولت، اور حسب و نسب کی وجہ سے اس کے ساتھ چشم پوشی سے کام نہیں لیتے تھے نہیں بلکہ آپ کے یہاں کمزور طاقتور ہوتا تھا یہاں تک کہ وہ اپنا حق لے لیتا تھا اور طاقتور آپ کے یہاں کمزور ہو جاتا تھا یہاں تک کہ حقدار کا حق اس سے واپس دلوا دیاجاتا تھا۔
ان کے عدل و انصاف اور حق گوئی کی عظمت کا عالم یہ تھا کہ وہ اس بارے میں کسی کے ساتھ بھی چشم پوشی سے کام نہیں لیتے تھے اگرچہ وہ شخص آپکے نزدیک سب سے محبوب اور پیارہ ہو، چنانچہ ایک بار یہ ہوا کہ ایک عورت نے جو اپنے خاندان میں بہت معزز تھی کوئی چیز چرا لی، جسکی وجہ سے اس پر چوری کی سزا واجب ہو گئی، تو اس کے خاندان والے نبی کریم ﷺکے صحابہ میں سے ایک ایسے صحابی کے پاس گئے جو نبی کریم ﷺکو سب سے زیادہ پیارے تھے، تاکہ وہ صحابی نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے اس عورت کی سزا معاف کرنے کی درخواست کریں، تو وہ صحابی نبی ﷺکے پاس حاضر ہوئے، اور آپ سے اس عورت کی سزا معاف کرنے کی گزارش کی ، تو نبی کریم ﷺ ان سے بہت نارا ض هوئے كه وہ ایک مسلمان هوكر عدل و انصاف کی حرمت پامال کرنے کی کوشش کر رهے هىں حالانکہ وہ صحابی انکے لیے سب سے پیارہ تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ قریش اس مخزومیہ عورت کے بارے میں بہت فکر مند ہوئے جس نے چوری کی تھی، اس لئے انہوں نے کہا کہ اس معاملے میں نبی کریم ﷺکے سامنے بولنے کی ہمت اسامہ بن زید (جو نبی ﷺکے لئے سب سے زیادہ محبوب تھے) کے علاوہ کوئی نہیں کر سکتا، تو حضرت اسامہ نے نبی ﷺسے اس بارے میں بات کی، تو اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : کیا تم اللہ کی ایک حد میں سفارش کر رہے ہو ؟! پھر آپ ﷺکھڑے ہوئے اور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
تم سے پہلے کے لوگوں کو اسی چیز نے ہلاک کیا تھا کہ اگر کوئی معزز شخص چوری کرتا تو وہ لوگ اسے ایسے ہی چھوڑ دیتے تھے، اور اگر کوئی کمزور شخص چوری کرتا تو اس کو سزا دیتے تھے۔
(مسلم)