Search
اعمال (صالحہ) میں جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہو جائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺنے ارشاد فرمایا:" اعمال (صالحہ) میں جلدی جلدی کرو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہو جائیں جو تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے اور ان فتنوں کا اثر یہ ہوگا کہ آدمی صبح کو ایمان کی حالت میں اٹھے گا اور شام کو کافر بن جائے گا اور شام کو مومن ہوگا تو صبح کو کافر، نیز اپنے دین ومذہب کو دنیا کی تھوڑی سی چیز کے عوض بیچ ڈالے گا۔"
اسی طرح کی وصیت اس سے پچھلی حدیث میں بھی وارد ہوئی تھی، لیکن سابقہ اور اس حدیث میں صرف اتنا فرق ہے کہ پچھلی حدیث خاص تھی اور یہ عام ہے، کیونکہ پچھلی حدیث میں ہے کہ: سات (آفتوں کے آنے) سے پہلے جلدی جلدی (نیک) عمل کرلو۔" اور اس حدیث میں ہے کہ : فتنوں کے ظہور سے پہلے اعمال (صالحہ) کو جلدی جلدی کر لو۔" چنانچہ اس میں کوئی تعداد بیان نہیں فرمائی بلکہ انہیں عام رکھا جس سے ان کی کثرت اور خطورت وشدت کی طرف اشارہ ہوتا ہے، چنانچہ وہ ایسے فتنے ہوں گے کہ عقلمند انسان کی عقل سلب کر لیں گے جس کی وجہ سے انسان اپنے سبھی تصرفات وافعال میں حماقت وبے وقوفی کا مظاہرہ کرے گا یہاں تک صبح یا شام میں اپنا ایمان ہی کھو دے گا، چنانچہ وہ فتنے تاریک رات کے ٹکڑوں کی مانند ہوں گے جن سے بچنے کی انسان کے پاس امید کی کوئی کرن نظر نہیں آئے گی اور نہ ہی اسے صحیح بات صحیح دکھائی دے گی کہ وہ اس اپنا لے اور نہ ہی اسےغلط چیز غلط دکھائی دے گی کہ وہ اسے چھوڑ دے۔
نبی کریم ﷺکے فرمان: " فتنوں سے پہلے جلدی جلدی عمل کرلو۔" کا مطلب ہے کہ ان فتنوں کے ظاہر ہونے اور آنے سے پہلے ہی نیک اعمال کرلو، اپنے اوقات سے فائدہ اٹھالو قبل اس کے کہ وہ فتنے ظاہر ہو جائیں اور پھر تم نیک اعمال کو چھوڑ کر ان میں لگ جاؤ، نیک لوگوں کا راستہ اپنالو قبل اس کے کہ وہ فتنے تمہیں بدکاروں کا راستہ اپنانے پر ابھاریں، بھلائی اور نیکی کے راستوں کو کھونے سے پہلے ہی تم انہیں تلاش کر لو کہ کہیں ایسا نہ کہ بعد میں وہ تمہیں نہ مل سکیں، فضائل وآداب اور عمدہ اخلاق سے آراستہ ہو جاؤ قبل اس کے کہ وہ فتنے تمہاری عقل وخرد کو سلب کر لیں کہ پھر تمہارے اندر عفو و درگزر اور حسن سلوک وغیرہ عمدہ صفات کی طاقت وقدرت ہی نہ رہے، نیز شیطان ہمہ وقت بنی آدم یعنی انسان کو بہکانے اور گمراہ کرنے کی تاک میں لگا ہوا ہے، دنیا کی رنگینیاں اس کے سامنے پیش کرتا ہے، اسے طویل عرصے تک دنیا میں زندہ رہنے کی آرزو تمنا دلاتا ، سیدھی راہ سے بھٹکاتا ہے، نیز انسان کا نفس امارہ (انسان کے اندر وہ نفس اسے جو برائی پر ابھارتا ہے) بھی اس کے خلاف شیطان کے موافق ہو جاتا ہے، لہذا شیطان جس چیز کے کرنے کا اسے حکم دیتا ہے وہی وہ کرتا ہے اور جس چیز سے اسے روکتا ہے رک جاتا ہے، ہاں سوائے اس شخص کے کہ جسے رب کریم اپنے فضل وکرم سے شیطان اور نفس کے مکر وفریب اور ان کی چال بازیوں سے محفوظ رکھے۔
کیونکہ نفس ہر وقت اور جگہ برائیوں کا ہی پجاری رہا ہے، اور اکثر لوگوں کی عقلوں کو سلب کر لیتا اور چھین لیتا ہے چنانچہ پھر کسی بھی نیک ومفید کام میں نہ تو ان کا من لگتا ہے، نہ وہ خود مختار رہتے ہیں اور نہ ہی وہ اس کا کوئی ارادہ اور حوصلہ رکھتے ہیں۔