Search
بے شک اصل صبر تو صدمے کے شروع میں ہی ہے
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایک عورت کے پاس سے گزرے جو اپنے (فوت شدہ) بچے پر رو رہی تھی، تو آپ ﷺ نے فرمایا: '' اللہ سے ڈر اور صبر کر۔'' تو وہ عورت کہنے لگی کہ تمہیں میری مصیبت کا کیا اندازہ ہے، پس جب آپ ﷺ چلے گئے تو عورت سے کہا گیا کہ وہ (کہنے والے) اللہ کے رسول ﷺ تھے، تو اسے موت کے برابر (صدمے) نے آ لیا، چنانچہ وہ عورت نبی ﷺ کے دروازے پر آئی تو اس نے آپ ﷺ کے دروازے پر دربان نہ پائے، کہنے لگی: اے اللہ کے رسول! میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا، (لہذا مجھے معاف فرما دیں) آپ ﷺ نے فرمایا:'' بے شک اصل صبر تو صدمے کے شروع میں ہی ہے ۔'' (راوی کو شک ہے کہ آپ ﷺ نے" عِنْدَ أَوَّلِ صَدْمَةٍ" کا لفظ بولا یا " عِنْدَ أَوَّلِ الصَّدْمَة" کا)
صبر کے ساتھ تقوی ایمان کے لیے ایسے ہی جیسے جسم کے لیے روح، اور تقوی کے مومنوں کے دلوں میں بہت گہرے اثرات ہوتے ہیں، ان میں سے صبر بھی اس کا ایک اثر ہے، بلکہ یہ اس کا ایک ساتھی ہے جو اس سے کبھی بھی الگ نہیں ہوتا ہے۔
صبر یہ ہے کہ اللہ کے فیصلے اور اس کے حکم سے راضی رہتے ہوئے کشادہ دلی اور اطمینان وسکون کے ساتھ مشکلات کا سامنا کرے، ناامیدی ومایوسی اور اس ہر چیز کو چھوڑ دے جو مصیبت پر جزع وفزع کرنے کا سبب ہو، اور مذکورہ ان تمام چیزوں پر مدد کے لیے کثرت سے ذکر الہی کرے، تلاوت قرآن مجید کرے، رات کے اندھیرے میں نمازیں پڑھے، خلوص کے ساتھ دعا کرے، ان سبھی جگہوں کو چھوڑ دے جہاں تنگ دلی اور افسردگی محسوس ہو، اور ایسی جگہوں میں جائے جہاں اس کا حزن وغم دور ہو جا ئے اور اسے راحت وسکون پہنچے بشرطیکہ وہاں حرام چیزوں پر نظر نہ پڑتی ہو اور نہ ہی خلاف شریعت امور کا ارتکاب ہوتا ہو۔
علمائے کرام نے مختلف اعتبارات سے صبر کی مختلف قسمیں کی ہیں، چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ صبر کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں:
(1) اطاعت وفرمانبرداری پر صبر کرنا
(2) گناہوں سے صبر کرنا
(3) آزمائش وبلاء پر صبر کرنا
(1) اطاعت وفرمانبرداری پر صبر کرنے کا مطلب ہے: بنا کوتاہی اور بغیر غفلت وسستی کے فرائض، واجبات ،سنن اور مستحبات ونوافل کو ادا کرنا، اور اللہ کے رحمت میں حرص وخواہش رکھتے ہوئے اور اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اس کی خوشنودی ورضا تلاش کرنا۔
(2) گناہوں سے صبر کرنا یہ پہلی قسم سے کم معزز واشرف نہیں ہے، اور نہ ہی اس سے الگ تھلگ ہے، کیونکہ اطاعت وفرمانبرداری: اوامر کی تعمیل کرنا اور ممنوعات ومنہیات سے بچنا ہے، ان دونوں چیزوں کے بغیر بندہ مطیع وفرمانبردار نہیں ہو سکتا ہے۔
(3) صبر کی تیسری قسم یعنی آزمائش ومصیبت پر صبر کرنا: یہ اللہ کے فیصلے اور اس کی مشیئت پر راضی رہنے سے پیدا ہوتی ہے جیسا کہ ما قبل میں ہم نے اس جانب اشارہ کیا، اور یہ تیسری قسم پہلی دونوں قسم سے مرتبط ہے بلکہ ان میں داخل ہے۔
بندہ کوبقدر مشقت ثواب ملے گا اور بقدر خلوص اسے کے جنت میں درجات بلند کیے جائیں گے۔
مشقت ومصیبت پر صبر کرنے کے کئی درجے ہیں، ان میں سب سے بڑا درجہ یہ ہے کہ صبر مصیبت کے شروع میں ہو، کیونکہ جب انسان کو کوئی پریشانی ومشقت یا صدمہ لاحق ہوتا ہے تو وہ اس کی عقل چھین لیتا ہے، اس کے دل کو پریشان کر دیتا ہے، اس کے مزاج کو بدل دیتا ہے، لہذا وہ اپنے ہوش کھو دیتا ہے اور جو نہیں کہنا چاہیے وہ سب کہہ دیتا ہے اور غیر مناسب عمل کرتا ہے، ایسے مصیبت بھرے وقت میں سب سے بہتر چیز جس کے ذریعے ایک مسلمان تقدیر سے رضا وخوشنودی کا اظہار کر سکتا ہے وہ یہ ہے کہ وہ یہ کلمہ کہے: إنّا لله وإنّا إليهِ رَاجعُون، یعنی ہم اللہ ہی کے ملکیت ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹنا ہے، اور جب بھی اسے میصبت یا پریشانی کی یاد آئے تو وہ اس کلمہ کو بار بار دوہرائے تاکہ اس پر سے اس مصیبت وپریشانی کا بوجھ ہلکا ہو جائے۔