Search
اس لئے علم نہ سیکھو کہ اس کی وجہ سے تم علماء پر فخر کرو
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اس لئے علم نہ سیکھو کہ اس کی وجہ سے تم علماء پر فخر کرو، نہ اس لیے کہ جہلاء سے جھگڑا کرو، اور نہ اس لیے کہ اس کے ذریعے مجالس میں برتری تلاش کرو، پس جس نے ایسا کیا تو اس کے لئے آگ ہی آگ ہے"۔
یہ وصیت اس شخص کے لیے ہے جو علم حاصل کرتا ہے، اور اس کے حصول میں محنت ومشقت برداشت کرتا ہے بلکہ اپنی ساری عمر اسی کی راہ میں گزار دیتا ہے، کہ اسے چاہیے کہ اخلاص سے کام لے یعنی صرف اللہ کے رضا وخوشنودی کے لیے علم حاصل کرے اور تقوی وپرہیزگاری اختیار کرے، کیونکہ تقوی سے علم ومعرفت کے دروازے کھلتے ہیں۔
چونکہ اخلاص ہی پر اعمال کی صحت اور ان کی قبولیت کا دارومدار ہے، اور تقوی تمام طرح کی بھلائیوں کا جامع ہے، چنانچہ دنیا وآخرت میں نفع بخش علم کا حصول اسی وقت ہو سکتا ہے جبکہ اسے اللہ کی رضا وخوشنودی کے لیے حاصل کیا جائے اور اس کے حصول میں اس ذات الہی کی اطاعت وفرمانبرداری سے مدد لی جائے جس کے قبضہ قدرت میں سارے علوم کی کنجیاں ہیں۔
علم ان تمام مقاصد سے اعلی ترین مقصد ہے جن کے حصول کی مومن کوشش کرتا ہے، کیونکہ علم ایمان ویقین صادق کے لیے دلوں کو کھولنے کی کنجی ہے، چنانچہ علم کے بغیر کوئی ایمان نہیں ہوتا ہے، اور یقین صرف ایمان کے بعد ہی ہوتا ہے۔
چنانچہ جو چاہے کہ اللہ اس پر علم وعرفان کے دروازے کھول دے تو وہ اسے اللہ ہی سے اور اللہ ہی کے لیے طلب کرے۔
لہذا طالب علم کو چاہیے کہ وہ خواہش نفس، لالچ، غرور وتکبر، تعصب، دنیا میں کسی طرح کی جاہ ومنزلت اور اقتدار کی خواہش سے اپنے آپ کو پاک وصاف رکھے ( اور صرف رضا الہی کے علم حاصل کرے) ۔
اسی لیے نبی کریم ﷺ نے طالب علم کو وصیت کی کہ اگر اس کے لیے علم ومعرفت کی راہیں ہموار کردی جائیں تو وہ اپنے علم سے علماء کے سامنے فخر کرنے کی خواہش سے پاک وصاف رہے، کیونکہ فخر کرنا بندے اور اس کے رب کے مابین تعلقات کو ختم کر دیتا ہے، کیونکہ یہ ایک طرح کا غرور وتکبر ہے، اور تکبر کرنے والے کے لیے اللہ کی رضا وخوشنودی میں کوئی حصہ نہیں ہے اور نہ ہی جنت میں اس کے لیے کوئی جگہ ہے۔
علماء کرام سے فخر کرنا ایک طرح کا فالتو جدل وجدال بھی ہے، اور ہر طرح کا جدل وجدال مذموم ہے سوائے اس کے جو اچھی طرح سے کیا جائے۔
جاہل مرکب وہ احمق ہے جو یہ جھوٹا دعوی کرے کہ اس کے پاس وہ علم ہے جو کہ فلاں فلاں کے پاس نہیں ہے۔
سب سے بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک عالم کسی جاہل پر غالب آنے کے لیے اس سے بحث ومباحثہ کرے، کیونکہ ان دونوں میں زمین آسمان کا فرق ہے۔
اسی طرح سے وہ عالم بھی جو اپنے علم کی وجہ سے سلاطین وامراء کی مجلسوں میں اقتدار حاصل کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ ایسے عالم کو بڑے سے بڑا بے وقوف بھی حقیر جانتا ہے، نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جس علم کی بدولت اسے عزت ووقار ملنا چاہیے اسی کی وجہ سے وہ ذلیل وخوار ہو جاتا ہے، پس اخلاص اور تقوی کے بغیر علم جہالت سے زیادہ نقصان دہ ہے۔
اور جو شخص مذکورہ مقاصد کے لیے علم حاصل کرے تو اس کے لیے اس وصیت کے آخر میں سخت وعید آئی ہے، کیونکہ یہ عمل (مذکورہ مقاصد کے لیے علم حاصل کرنا) اخلاص اور تقوی سے پرے ہے، بلکہ اس میں غرور وتکبر، ریاکاری اور ان کے علاوہ دیگر ہلاکت خیز آفتیں ہیں۔