Search
اللہ سے (خیر و) عافیت مانگو
حضرت عباس بن عبدالمطلب کہتے ہیں کہ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز سکھائیے جسے میں اللہ رب العزت سے مانگتارہوں، آپ نے فرمایا: اللہ سے (خیر و) عافیت مانگو، پھر کچھ دن بعد میں اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے کوئی ایسی چیز بتائیے جسے میں اللہ تعالی سے مانگتارہوں، آپ نے فرمایا: اے عباس ! اے رسول اللہ کے چچا! دنیا وآخرت میں (خیر و) عافیت طلب کرو"۔
خیر وعافیت کا مطلب آزمائش وتکلیف کا ختم ہونا، برے انجام والے امور سے بچنا اور ہر بیمار سے شفا یاب ہونا ہے، اور تندرستی وصحت کو بھی عافیت کہا جاتا ہے۔
عربی میں عافیت ومعافات دونوں کا ایک ہی معنی ہے، اور یہ بھی کہا جاتا ہے کہ معافات کا مطلب ہے کہ اللہ تجھے لوگوں سے اور انہیں تجھ سے محفوظ رکھے یعنی تجھے ان سے اور انہیں تجھ سے بے نیاز رکھے اور تجھے ان کی تکلیفوں سے اور انہیں تیری پریشانیوں سے محفوظ رکھے۔
لہذا اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ جس چیز میں بھی خیر وعافیت ہوتی ہے تو وہ اسے مزین آراستہ کر دیتی ہے اور اس کی شان بڑھا دیتی ہے اور جس چیز سے خیر وعافیت ختم کردی جاتی ہے تو وہ چیز عیب دار ہوجاتی ہے اور اس کی شان گھٹ جاتی ہے، لہذا خیر وعافیت میں تمام بھلائیاں ہیں۔
لہذا جب کو ئی بندہ اپنے پروردگار سے خیر وعافیت طلب کرتا ہے تو گویا کہ وہ اپنے رب کریم سے مغفرت وبخشش بھی طلب کرتا ہے، پس اگر اس کی دعا قبول ہو گئ تو لامحالہ وہ جنت میں جائے گا إن شاء اللہ عزوجل۔
نبی کریم ﷺ ہمیشہ اپنی سبھی امور میں اپنے پروردگار سے دنیا وآخرت کی خیر وعافیت طلب کرتے تھے۔