Search
بے شک دین آسان ہے
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو دین اس پر غالب آ جائے گا (اور اس کی سختی نہ چل سکے گی) پس (اس لیے اپنے عمل میں) پختگی اختیار کرو، اور جہاں تک ممکن ہو میانہ روی برتو اور خوش رہو، اور صبح، شام اور رات کی تاریکی میں (عبادت سے) مدد حاصل کرو۔ (نماز پنج وقتہ بھی مراد ہو سکتی ہے کہ پابندی سے ادا کرو۔)
یہ حدیث پاک نبی کریم ﷺکی جوامع الکلم احادیث میں سے ہے جس میں آپ ﷺنے تمام خصوصیات دین کو ایک ہی کلمہ میں جمع کر دیا اور بیان فرمایا کہ جو بھی اس دین میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی اور زیادتی سے کام لے کر اس پر غالب آنا چاہے گا تو دین ہی اس پر غالب رہے گا اور وہ شخص مغلوب ہوگا، اس کے بعد آپ ﷺنے اپنے پیروکاروں کو ایسی چار چیزوں کی وصیت فرمائی جو انفرادی ارتقاء وترقی اور اصلاح معاشرہ میں اصول کی حیثیت رکھتی ہیں، چنانچہ وہ کلمہ جس میں آپ ﷺنے تمام خصوصیات دین کو جمع فرما دیا وہ (دین میں) " یسر یعنی آسانی" ہے، اب سوال یہ ہے کہ آسانی کیا ہے؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے مفہوم میں بہت سے چیزیں شامل ہیں جیسے حرج کو ختم کرنا، مشقت وپریشانی کو دور کرنا، کم ذمہ داری، تشریع واحکام کا سب کے موافق ہونا، اس میں سب کو برابر کے حقوق دینا ، سب کے ساتھ عدل وانصاف سے کام لینا، ہر زمانہ اور ہر جگہ میں سبھی کی رعایت کرنا، انہیں مختلف قسم کے رخصتیں دے کر ان پر تخفیف کرنا، اس کے علاوہ نیک اعمال پر کئی گنا زیادہ اجر وثواب دے کر انہیں اللہ سے زیادہ سے زیادہ اجر وثواب لینے کے لیے ترغیب دلانا، پوری طرح سے توبہ کے دروازے کھلے رکھنا تاکہ جو بھی جب بھی گناہوں سے سچی توبہ کرنا چاہیے تو وہ سچے دل سے اپنے رب کی بارگاہ اپنے گناہوں سے توبہ کرلے، اور بھی ان کے علاوہ بہت سے چیزیں ہیں جو اس لفظ آسانی کے مفہوم میں شامل ہیں۔ چنانچہ اس حدیث پاک کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص بھی اس دین کے علاوہ میں آسانی طلب کرے گا تو وہ اسے اس دین اسلام کے علاوہ کہیں نہیں ملے گی، اور جو اس دین کو اختیار کرلے پھر وہ اس کے کسی معاملے میں سختی کرنا چاہے تو وہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس دین کی خاصیت میں ہی لوگوں پر نرمی اور آسانی کرنا ہے۔