Search
اے اللہ میں تجھ سے ہر اس خیر (بھلائی)کا سوال کرتا ہوں جس کا تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے سوال کیا
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بہت ساری دعائیں کیں مگر ہمیں ان میں سے کوئی دعا یاد نہ رہی، میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! دعائیں تو آپ نے بہت سی کیں مگر میں کوئی دعا یاد نہ رکھ سکا، آپ نے فرمایا: کیا میں تمہیں ایسی دعا نہ بتادوں جو ان سب دعاؤں کی جامع ہو، کہو:
(ترجمہ: اے اللہ میں تجھ سے ہر اس خیر (بھلائی)کا سوال کرتا ہوں جس کا تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے سوال کیا اور ہر اس چیز سے پناہ مانگتا ہوں جس سے تیرے نبی محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے پناہ مانگی، تو ہی مدد گار ہے، تو ہی (ہر خیر وشر) پہنچانے والا ہے، اور گناہوں سے بچنے کی طاقت اور نیکی کرنے کی ہمت بھی صرف اللہ ہی کی طرف سے ہے۔)
نبی کریم ﷺ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں بہت سے دعائیں فرماتے تھے جس میں بھلائی کی تمام خوبیاں ہوتی تھیں اور آپ ﷺ ایسے اچھوتے ونرالے اور شاندار اسلوب وانداز کے ذریعے دعائیں فرماتے تھے کہ جو مومنوں کے دلوں میں گھر کر جاتا اور سامعین کے جذبات اور احساسات پر اپنا سکہ جما لیتا، یہی وجہ ہے کہ وہ دعاؤں کے ان جامع کلمات کو یاد کرنے کی بہت زیادہ کوشش کرتے تاکہ وہ نبی کریم ﷺ کی طرح ان کلمات کے ذریعے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں گڑ گڑا کر دعائیں کریں، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ دعا عبادت کا مغز ہے، بندہ کی خالص بندگی کا سچا ترجمان ہے اور واحد قہار ومعبود برحق کی اسے پوری حاجت وضروت ہونے کی بہترین دلیل ہے۔
اللہ کی بارگاہ میں دعا کرنا انبیاء کرام علیہم السلام کا طریقہ رہا ہے چنانچہ وہ تمام لوگوں سے زیادہ اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے، اور تمام انبیاء کرام علیہم السلام میں سب سے زیادہ نبی خاتم ہمارے پیغمبر محمد ﷺ اللہ کی بارگاہ میں دعا کرتے تھے۔
اور پھر ہر امت کے اولیاء کرام اور اللہ کے نیک بندوں نے بھی اپنے انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کے طریقے پر چلتے ہوئے اس عمل کو باقی رکھا، لیکن ان میں سب سے زیادہ بھلائیوں کی جانب سبقت کرنے والے اور خلوص دل سے دعا کرنے والے ہمارے نبی کریم ﷺ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور پھر قیامت تک ان کے نقش قدم پر چلنے والے اللہ کے نیک بندے ہیں۔
اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ نبی کریم ﷺ سے وارد الفاظ کے ذریعہ دعا کرنا ہی سب سے افضل وبہتر واعلی، مقبولیت کے زیادہ قریب اور زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے، ورنہ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم صادق ومصدوق نبی کریم ﷺ کی دعاؤں کے الفاظ وکلمات کو یاد کرنے کے لیےکیوں محنت ومشقت کرتے؟
لہذا مسلمان نبی کریم ﷺ سے مروی دعاؤں میں سے ایسی دعا اختیار کرے جسے وہ آسانی کے ساتھ بول اور یاد کر سکے، جس سے اسے لذت حاصل ہو اور جو اس کی طلب وحاجت کے زیادہ مناسب ہو۔
دعا میں اس بات کا خیال رکھا جائے کہ دعا اس طرح سے کی جائے کہ بندہ اللہ عزوجل کی بارگاہ میں مکمل طور پر اپنی عاجزی ومحتاجی کو ظاہر کرے اور اپنی حاجتیں طلب کرے۔
یاد رکھیں کہ دعا کے کچھ آداب ہیں جن کی رعایت کرنا بہت ضروری ہے ورنہ تو ہو سکتا ہے کہ شاید اس کی دعا قبول نہ کی جائے۔