1. مضامين
  2. الله كےرسول محمدﷺكى ذات گرامي
  3. محمد ﷺکا اخلاق قرآن کریم تھا

محمد ﷺکا اخلاق قرآن کریم تھا

1189 2020/11/07 2024/03/19
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية Français Deutsch Español

 حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺکے اخلاق بیان کرتے ہوئے کہا کہ آپ ﷺکا اخلاق قرآن ہے، چنانچہ سعد بن حشام بن عامر کے مدینہ آنے والی ایک طویل حدیث میں ہے کہ وہ کچھ مسائل کے بارے میں دریافت کرنے کے لیے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے پاس آئے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:

" پھر میں نے کہا، اے مومنوں کی ماں! اللہ کے رسول ﷺکے اخلاق کے بارے میں مجھے بتائیں؟

تو انہوں نے ارشاد فرمایا : کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟

میں نے کہا: کیوں نہیں.

انہوں نے فرمایا کہ: بے شک اللہ کے نبی ﷺکا اخلاق قرآن تھا.

وہ کہتے ہیں کہ اس وقت میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ اٹھوں اور مرتے دم تک کسی سے بھی کچھ نہ پوچھوں ....    (مسلم)

اور ایک دوسری روایت میں ہے :

میں نے کہا: اے مومنوں کی ماں! مجھے اللہ کے رسول ﷺ کے بارے میں بتاؤ؟

انہوں نے فرمایا : اے میرے بیٹے! کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ 

(اور بے شک تمہارے اخلاق بڑے اعلی  درجے کے ہیں)

(ابو یعلی نے صحیح سند کے ساتھ اس روایت کی تخریج کی ہے: 275/8)

امام نووی رحمہ اللہ مسلم شریف کی شرح میں ارشاد فرماتے ہیں :

" اس کا مطلب ہے : اس (قرآن) پر عمل کرنا، اس کی حدوں سے تجاوز نہ کرنا، اور اس کے آداب و تعلیمات کو پکڑے رہنا، اس کی مثالوں اور قصوں سے عبرت حاصل کرنا، اس میں غور و فکر کرنا اور اس کی اچھی طرح تلاوت کرنا "

اور ابن رجب "جامع العلوم والحكم " میں کہتے ہیں:

" یعنی وہ (نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم) قرآن کریم کے آداب سے آراستہ اور اس کے اخلاق و تعلیمات سے مزین تھے، چنانچہ قرآن کریم نے جس کی تعریف کی اسی میں ان کی رضا و خوشنودی تھی، اور جس کی قرآن مجید نے برائی کی اسی میں ان کی ناراضگی و ناخوشگواری تھی، اور حضرت عائشہ رضي الله عنہا سے ہی ایک روایت ہے، چنانچہ وہ کہتی ہیں:

" ان کا اخلاق قرآن تھا، اس کی رضا میں ان کی رضا تھی، اور اس کی ناراضگی میں انکی ناراضگی تھی. "

علامہ مناوی " فیض القدير " میں لکھتے ہیں:

" یعنی جو اوامر و نواہی اور وعد و وعید وغیرہ پر قرآن کریم نے بیان کیے "

اور قاضی نے کہا:

" یعنی نبی کریم ﷺکے اخلاق جو کچھ قرآن میں ہے سب کو شامل تھے، کیونکہ جس چیز کو بھی قرآن کریم نے اچھا کہا اور اس کی تعریف کی اور اس کی طرف بلایا ان سب سے آپ ﷺمزین و آراستہ تھے، اور جس چیز کو بھی قرآن کریم نے برا کہا اور اس سے منع کیا تو آپ ﷺاس سے بچتے اور دور رہتے تھے، چنانچہ اس طرح قرآن مجید آپ ﷺکے اخلاق کا واضح بیان ہے......."

امام ابو حامد غزالی رحمہ اللہ" إحياء علوم الدين "میں ارشاد فرماتے ہیں:

نبی کریم ﷺ کے ان اخلاق کی جملہ خوبیوں کا بیان جنہیں بعض علماء کرام نے احادیث و اخبار سے لیکر ایک جگہ جمع کیا ہے، چنانچہ وہ کہتے ہیں:

نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ بردبار، سب سے زیادہ بہادر، سب سے زیادہ عادل وانصاف ور، اور سب سے زیادہ پاک دامن تھے، انہوں نے کبھی بھی کسی ایسی عورت کا ہاتھ نہیں چھوا جس کے رقبہ یا ملک بضعہ کے وہ مالک نہیں تھے یا پھر وہ غیر محرم عورتوں میں سے تھی، اور وہ سب سے زیادہ سخی تھے، یہاں تک کہ ایک رات کے لیے بھی اپنے گھر میں ایک بھی درہم اور دینار نہیں روکتے، اگر کچھ بچ جاتا اور رات ہو جاتی اور کوئی ایسا شخص نہیں ملتا جسے وہ بچا ہوا مال دیتے تو جب تک وہ اسے حاجتمند کو دے نہیں دیتے تھے اپنے گھر تشریف نہیں لے جاتے تھے، اور اللہ تعالى جو انہیں عطا فرماتا تو وہ اس میں سے صرف سال بھر کفایت کرنے والی سب سے آسان اور ہلکی چیز جیسے کھجور اور جو وغیرہ اپنے لیے روکتے اور باقی سب اللہ کی راہ میں خرچ کر دیتے تھے، جب بھی کسی نے ان سے کوئی چیز مانگی تو آپ ﷺنے اسے وہ دے دی اور اسے واپس نہیں کیا، اور پھر اپنی سال بھر کی خوراک میں سے بھی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے تھے حالانکہ بسا اوقات اگر کوئی دوسری چیز نہیں آتی تھی تو سال ختم ہونے سے پہلے ہی انہیں اس کی سخت ضرورت پڑ جاتی تھی، آپ ﷺاپنی چپلیں خود ہی سی لیتے اور اپنے کپڑے پر خود ہی پیوند لگا لیتے تھے، گھروں کے کاموں میں گھر والوں کی مدد کرتے تھے اور ان کے ساتھ گوشت بھی کٹواتے تھے، آپ سب سے زیادہ حیا والے تھے، آپ کی نظریں کسی کے چہرے پر جمی نہیں رہتی تھیں، اور غلام اور آزاد سب کی دعوت قبول فرماتے، تمام تحائف قبول فرماتے اگرچہ دودھ کا ایک گھونٹ ہی کیوں نہ ہو، اور بدلے میں کچھ دیتے بھی تھے، آپ ﷺصدقہ نہیں کھاتے تھے، باندی اور مسکین کا جواب دینے میں تکبر نہیں کرتے تھے، اللہ کے لیے غصہ ہوتے اپنے لیے نہیں، اور حق نافذ کرتے اگرچہ اس میں آپ کا یا آپ کے صحابہ کا نقصان ہو، چنانچہ آپ کے اکابرین صحابہ میں سے کسی کی نعش یہودیوں کے علاقہ میں ملی، تو آپ ﷺنے ان پر سختی نہیں کی اور حق سے زیادہ کچھ نہیں کہا، بلکہ آپ ﷺنے سو اونٹ ان مقتول صحابی کی دیت میں دیئے حالانکہ ان کے صحابہ کرام کو ایک هى اونٹ کی بہت سخت ضرورت تھی۔

اور وہ بھوک کے باعث اپنے پیٹ پر پتھر باندھتے تھے، اور آپ حلال کے علاوہ کچھ نہیں کھاتے تھے، ٹیک لگا يا میز پر بیٹھ کر نہيں کھاتے تھے، آپ  اپنی پوری زندگی کبھی بھی لگاتار تین دن روٹی سے شکم سیر نہیں ہوئے وہ ایسا اس لیے کرتے تھے کہ انہیں کم کھانا پسند تھا غربت و کنجوسی کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے تھے، آپ ولیمہ کی دعوت بھی قبول کرتے تھے، بیماروں کی عیادت کرتے اور جنازوں میں شرکت کرتے تھے، اپنے دشمنوں کے درمیان بغیر کسی محافظ کے تنہا چلتے تھے، وہ سب سے زیادہ تواضع و انکساری کرنے والے اور سب سے زیادہ پر سکوں اور خاموش مزاج تھے، تکبر نہیں کرتے تھے، سب سے زیادہ فصیح و بلیغ تھے، لمبی بات نہیں کرتے تھے، سب سے زیادہ خوبصورت تھے، دنیوی کسی چیز کے لیے فکر مند نہ ہوئے، جو مل جاتا پہن لیتے تھے، سواری پر اپنے پیچھے غلام یا دوسرے کو  سوار کر کر لیتے تھے،  سواری کے لئے جو کچھ بھی دستیاب ہوتا اس پر سوار ہو جاتے تھے، کبھی گھوڑے ، کبھی اونٹ ، کبھی خچر اور کبھی دراز گوش پر سوار ہوتے تھے، اور کبھی ٹوپی، عمامہ شریف اور قمیص کے بغیر پیدل چلتے تھے، خوشبو پسند فرماتے تھے، اور بدبو سے نفرت کرتے تھے، فقیروں اور غریبوں کے ساتھ بیٹھتے اور مسکینوں کے ساتھ کھانے کھاتے تھے، اور اچھے اخلاق والوں کو عزت و احترام سے نوازتے تھے، اور اہل شرف پر احسان کر کے ان کی تالیف قلب فرماتے تھے، وہ رشتہ داروں کے ساتھ رشتہ داری قائم رکھتے، لیکن ان سے افضل و بہتر افراد پر انہیں فوقیت نہیں دیتے، کسی پر سختی نہیں کرتے تھے، جو عذر پیش کرتا اس کا عذر قبول فرماتے تھے،اور مذاق کرتے تھے لیکن حق سے سوا کچھ نہیں کہتے تھے، بنا قہقہہ لگائے ہنستے تھے، جائز کھیل دیکھتے تو منع نہیں فرماتے تھے، اپنی بیویوں سے مسابقہ کرتے اور دوڑتے تھے، آپ کے خلاف آوازیں اٹھتیں تو صبر کرتے تھے، آپ ﷺکے غلام اور باندیاں تھیں لیکن آپ ان سے اچھا نہیں کھاتے  پہنتے تھے، آپ کا کوئی بھی وقت ایسے کام میں نہیں گزرتا تھا جو اللہ کے لیے نہ ہو یا پھر وہ آپ کی بہتری کے لیے نہ ہو، کسی غریب و مسکین کو اس کی غریبی و مسکینی یا دیر پا مرض کی وجہ سے حقیر نہیں سمجھتے تھے، اور نہ ہی بادشاہ سے اس کی بادشاہت کی بنا پر ڈرتے تھے، چنانچہ آپ دونوںکو یکساں  اللہ تعالی کی طرف بلاتے تھے۔

 ابو بحتری سے روایت ہے وہ کہتے ہیں :

" اللہ کے رسول ﷺنے جب بھی کسی مسلمان کو ناراضگی میں کچھ کہا تو آپ کا وہ کہنا اس کے لیے کفارہ اور رحمت بن گیا"

نیز نبی کریم ﷺارشاد فرماتے ہیں :

 میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں، اور لعنت کرنے والا بنا کر نہیں بھیجا گیا ہوں"

اور جب آپ ﷺسے کسی مسلمان یا کافر کے لیے بد دعا کرنے کے لیے کہا جاتا تو آپ بدعا کرنے کے بجائے اس کے لیے دعا فرماتے تھے، آپ نے کبھی بھی کسی کو مارنے کے لیے ہاتھ نہیں اٹھایا، اور جب بھی آپ ﷺکو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتا تو آپ ان میں سے آسان چیز کو اختیار فرماتے جبکہ اس میں کوئی گناہ یا رشتہ داروں سے قطع تعلق نہ ہوتا، اللہ تعالی نے آپ ﷺکو مبعوث کرنے سے پہلے  توریت میں آپ کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

محمد اللہ کے رسول ہیں، میرے پسندیدہ بندے ہیں، نہ تند مزاج ہیں اور نہ ہی سخت دل اور نہ ہی بازاروں میں شور مچانے والے ہیں، برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے ہیں بلکہ عفو و درگزر کردیتے ہیں"

آپ ﷺکے اخلاق میں سے یہ بھی تھا کہ جس سے بھی آپ ملتے تو پہلے اسے سلام کرتے تھے، اور اگر کوئی کسی حاجت و ضرورت کے لیے آتا (اور آپ کے پاس اسے دینے کے لیے کچھ نہیں ہوتا ) تو اس سے صبر کرنے کو کہتے یہاں تک کہ وہ خود ہی چلا جاتا تھا، اور جب بھی مصافحہ کرنے کے لیے کوئی آپ کا دست مبارک پکڑتا تو جب تک وہ ہاتھ خود نہ چھوڑا لے تب تک آپ اس کا ہاتھ نہیں چھوڑتے تھے، مجلس میں جیسے آپ کےصحابہ کرام بیٹھتے تھے ویسے ہی آپ بیٹھتے تھے، اللہ تعالی قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے :

فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ ۖ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ (آل عمران: 159)

  (تو یہ کیسی کچھ اللہ کی مہربانی کہ اے محبوب! تم ان کے لیے نرم دل ہوئے، اور اگر تند مزاج سخت دل ہوتے تو وہ ضرور تمہارے گرد سے پریشان ہو جاتے۔)

اللہ تعالی نے آپ ﷺکو اچھی سیرت  اور مکمل سیاست (یعنی لوگوں اور ان کے حالات كو سنبھالنے کا بہترین طریقہ)کے عطا فرمایا، اگرچہ آپ امی تھے پڑھنا لکھنا آپ نے کسی انسان سے نہیں سیکھا، بنا ماں باپ کے یتیمی و غربت کی حالت میں ، بکریاں چراتے ہوئے جہالت و بربریت کے شہر و جنگل میں آپ کی نشوونما ہوئی، لیکن اللہ تعالی نے تمام اچھے اخلاق، خصال حمیدہ، اولین و آخرین کا علم، دنیا و آخرت میں فلاح و بہبودی کے طریقے، واجبات کی پابندی اور فضولیات سے پرہیزگاری سب کچھ سکھا دیا، اللہ تعالی ہمیں آپ ﷺکے فرمان کی اطاعت و فرمانبرداری اور آپ کی سنت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے آمین يا رب العالمین۔                                     (اختصار کے ساتھ اقتباس ختم ہوا)

کوئی بھی شخص یہ نہ سمجھے کہ جو کچھ اوپر بیان ہوا سب اختراعی باتیں اور من گھڑت کہانیاں ہیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے، کیونکہ مندرجہ بالا بیان کی ہر بات مسانید، صحاح اور سنن کی بہت سی صحیح مسند حدیثوں سے ثابت ہے، لیکن اختصار کی وجہ سے یہاں وہ حدیثیں ذکر نہیں کیں، اور جو انہیں جاننا چاہتا ہے تو وہ امام ترمذی کی کتاب " شمائل محمديہ" کا مطالعہ کرے۔

پچھلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day