Search
محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان نہ لانے والے سے علمی ومادی خطاب
آج کے دور میں اللہ، اس کی نشانیوں اور اس کے رسول کا مذاق اڑانا اور ان پر طنز کرنا ایک عام بات بن چکی ہیں، اور یہ بیشتر مزاق دوسرے لوگ اڑاتے ہیں، پس ملحدین دعوی کرتے ہیں کہ اسلام پسماندگی، دہشت گردی اور جہالت کا مذہب ہے، لہذا دشمنان اسلام آج یہ دعوی کرکے اس کی تعلیمات کا مذاق اڑا رہے ہیں کہ وہ پرانی ہوچکی ہیں اور آج کے دور سے ہم آہنگ نہیں ہیں!
سبحان للہ! کیا ان کے یہاں اظہار رائے کی آزادی اللہ کی سب سے عظیم مخلوق صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانے میں ہی رہ گئی ہے؟
تاہم ظاہر ہے کہ ان لوگوں کو کوئی ایسی علمی بات نہیں ملی جس سے اسلام پر تنقید کی جا سکے، لہذا پھر انہوں نے اس طرح کی مایوس کن وناقابل برداشت تصویروں وکارٹونوں کا سہارا لیا، کیونکہ وہ اپنے پیروکاروں کو راضی وخوش کرنے کے لئے قرآن عظیم یا احادیث رسول کریم میں کوئی علمی یا لغوی غلطی نکالنے میں کامیاب نہ ہو سکے سوائے ان تصویروں وکارٹونوں کے جو ان کے افلاس کی عکاسی کرتے ہیں۔
ہمیں حق ہے کہ ہم ان چیزوں کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کریں، لیکن ہم ان کے انبیاء کرام حضرت موسی اور حضرت عیسی علیہما السلام کا مذاق نہیں اڑا ئیں گے ، کیونکہ وہ ان سے اور ان کے اعمال سے بری ہیں، اور اس لیے بھی کہ ہم ان انبیاء کرام علیہم السلام کے درمیان فرق نہیں کرتے ہیں، کیونکہ وہ سب اللہ عزوجل کے نبی ورسول ہیں، لیکن اس سے پہلے آئیے ان کے اور ان جیسوں کے بارے میں اللہ عزوجل کے فرمان کو سنتے ہیں، چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا * وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ [سورہ احزاب: 57-58]۔
ترجمہ: بے شک جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے، اور جو ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو نا حق ستاتے ہیں تو انہوں نے اپنے سر بہتان اور کھلا گناہ لیا۔
ان تصاویر اور کارٹونوں سے اللہ پاک کو ایذا دینا (یعنی اسے ناراض کرنا)، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا اور ہر مسلمان مرد اور عورت کو شدید تکلیف دینا ہے، لہذا یہ اور ان جیسے لوگ اگر اپنے اس فعل شنیع سے باز نہیں آتے ہیں تو قیامت کے دن سخت تکلیف دہ عذاب کے حق دار ہوں گے۔
ہمارا انداز بیان ان کے اس قبیح انداز بیان سے کہیں زیادہ مستحکم اور پائیدار ہوگا جو کہ ان کارٹونوں کے علاوہ کچھ بھی نہیں ہے جو ایسے اوہام ووساوس کی عکاسی کرتے ہیں کہ جن کا کارٹونسٹ کے خیال کے علاوہ کہیں وجود نہیں ہے۔
ہم ان لوگوں سے علمی وسائنسی زبان میں خطاب کریں گے جو کہ وہ ہمارے ساتھ نہ کر سکے!
اور انہیں اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت بتائیں گے۔
ہم یہاں ان اعلی اخلاق اور حیرت انگیز وعظیم اوصاف کے بارے میں بات نہیں کروں گا جو خاتم النبیین محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اندر موجود تھے، کیونکہ ان لوگوں میں وہ اخلاق پائے ہی نہیں جاتے ہیں اور نہ ہی وہ انہیں مانتے ہیں، بلکہ ہم ان سے ان حقائق وانکشافات کی روشنی میں سائنسی اور مادی خطاب کریں گے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے اور قرآن مجید میں موجود ہیں اور چودہ سو سالوں سے پڑھے جا رہے ہیں اور جاتے رہیں گے إن شاء الله۔
میں ان لوگوں سے کہتا ہوں جنہیں آج اپنے علم اور عدل وانصاف پر بڑا فخر ہے، کیونکہ وہ تکنیکی طور پر ترقی یافتہ اور جمہوری ہیں جو انصاف اور حقوق پر یقین رکھتے ہیں، پس ہم ان سے کہتے ہیں: جس قرآن مجید کا آج تم مذاق اڑاتے ہو وہ پہلی ایسی کتاب ہے جس میں لوگوں کو علم اور انصاف کی دعوت دی گئی، اور انہیں دونوں پر ہر تہذیب کی کامیابی اور بقا کی بنیاد ہے۔
چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو سب سے پہلا کلمہ نازل ہوا وہ ﴿اقرأ﴾یعنی“ پڑھو” تھا، جو اس بات کی دلیل کہ اسلام علم کا دین ہے، جبکہ قرآن پاک میں سب سے آخر میں نازل ہونے والا کلمہ ﴿لا يُظْلَمُونَ﴾یعنی “ان کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوگی” ہے، جو کہ اس بات کو بتاتا ہے کہ اسلام عدل وانصاف کا دین ہے، تو جس چیز پر تم آج فخر کرتے ہو ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صدیوں پہلے سے ہی اس چیز کو پیش کر چکے ہیں۔
تم کہتے ہو کہ مخلوق اور کائنات کی تخلیق کی تاریخ سے بحث کرنے اور اسے تلاشنے کی سب سے پہلے تم نے دعوت دی اور اس پر بڑا فخر کرتے ہو، لیکن ہم آپ کو دعوت دیتے ہیں کہ آؤ چودہ سو سالوں سے قرآن کریم میں موجود اللہ کے مندرجہ ذیل فرمان کو پڑھیے جس میں واضح طور پر آغاز تخلیق میں غور وفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے:
﴿قُلْ سِيرُواْ فِى ٱلْأَرْضِ فَٱنظُرُواْ كَيْفَ بَدَأَ ٱلْخَلْقَ ۚ ثُمَّ ٱللَّهُ يُنشِئُ ٱلنَّشْأَةَ ٱلْءَاخِرَةَ ۚ إِنَّ ٱللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَىْءٍۢ قَدِيرٌ﴾ [سورہ عنکبوت: 20]
ترجمہ: (اے نبی) تم فرماؤ کہ زمین میں سفر کر کے دیکھو کہ اس (اللہ) نے کیسے مخلوق کو پہلے پیدا کیا، پھر اللہ (ہی) دوسری مرتبہ پیدا کرے گا، یقیناً اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔
چنانچہ یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ صدیوں پہلے ہی سے قرآن کریم نے غور وفکر، بحث وتحقیق اور مطالعہ کا کتنا اہتمام کیا ہے۔
ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فلکیات اور ظواہر کونیہ کی سائنسی بنیاد رکھی جس وقت کہ لوگوں نے سوچا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے ابراہیم کی وفات کی وجہ سے سورج گرہن ہوگیا ہے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “سورج اور چاند اللہ کی دو نشانیاں ہیں، وہ کسی کی موت یا زندگی کی وجہ سے گرہن ہوتے ہیں”۔[بخاری ومسلم]
پس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ کلمات ایک ایسے زمانہ میں ارشاد فرمائے جبکہ تم لوگ سمجھتے تھے کہ گرہن کسی عظیم شخص کی پیدائش یا اس کی موت، یا کسی حاکم و بادشاہ کے زوال یا جنگ میں شکست کا اشارہ ہوتاہے۔
ایسے وقت میں جبکہ یوروپ کاہنوں، نجومیوں، اور جادوگروں سے بھرا ہوا تھا اور اس وقت بیشتر لوگ انہیں مانتے تھے، اس وقت میں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس طرح کی خرافات کی ممانعت فرمائی، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جو بھی کسی کاہن یا فال کھولنے والے کے پاس گیا اور اس کی بات پر یقین کیا، تو اس نے محمد پر نازل ہونے والی باتوں کا انکار کیا”۔ [ احمد بن حنبل نے اسے روایت کیا ہے]
ایسے وقت میں جبکہ تم یہ سوچتے تھے کہ زمین ساکن ہے متحرک نہیں، قرآن پاک نے ایک سائنسی حقیقت بیان فرمائی جس میں یہ تاکید کی گئی کہ کائنات کی ہر چیز ایک خاص مدار میں چل رہی ہے، اور اس حقیقت کا انکشاف تم ابھی حال ہی میں کر پائے ہو، چنانچہ اللہ رب العزت زمین، چاند اور سورج کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَكُلّ فِي فَلَكٍ يَسْبَحُونَ﴾ [سورہ یس:40]
ترجمہ: ہر ایک، ایک گھیرے میں پیر رہا ہے۔
ایسے زمانہ میں جبکہ یورپ یہ اعتقاد رکھتا تھا کہ ہوا چلانے والا خدا الگ ہے، بارش برسانے والا الگ اور بجلی چمکانے والا الگ ہے، قرآن مجید نے ان تمام ظواہر کی بنیاد رکھی جن کا تم لوگوں نے ابھی کچھ سالوں پہلے ہی انکشاف کیا ہے، لہذا اگر ہوا کے حقائق کو پڑھنا اور جاننا چاہو تو اللہ رب العزت کے مندرجہ ذیل فرمان کو پڑھو اور غور وفکر کرو:
﴿وَأَرْسَلْنَا الرِّيَاحَ لَوَاقِحَ فَأَنزَلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَسْقَيْنَاكُمُوهُ وَمَا أَنتُمْ لَهُ بِخَازِنِينَ﴾ [سورہ حجر: 22]
ترجمہ: اور ہم نے ہوائیں بھیجیں بادلوں کو اٹھانے والیاں، تو ہم نے آسمان سے پانی اتارا، پھر ہم نے اسے تمہیں پلایا، اور تم اسے جمع کرکے رکھنے والے نہیں ہو۔
کیا تم نے حال ہی میں اپنے آلات اور مشینوں کے ذریعہ بادل اور بارش لانے میں ہواؤں کے کردار کا انکشاف نہیں کیا ہے؟
مزید برآں، اگر آپ بجلی کے انجنئیرنگ میکانزم کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں جو ابھی چند سالوں پہلے تک آپ کے لیے غیر معروف تھی، تو ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مندرجہ ذیل حدیث پاک ملاحظہ فرمائیں، چنانچہ ارشاد فرمایا: “کیا تم نے بجلی کی طرف نہیں دیکھا کہ یہ کس طرح پلک جھپکنے میں گزرتی اور لوٹتی ہے؟” [مسلم]
کیا تمہارے ڈیجیٹل کیمروں نے بجلی کی تصویریں نہیں لیں، اور تم نے اس کی شعاؤوں کو نہیں دیکھا کہ کس طرح گزرتی اور لوٹتی ہے ٹھیک اسی طرح جیسا کہ حدیث پاک میں بیان ہوا؟
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم تاریخ کے وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے اپنی متعدد احادیث میں میڈیکل ریسرچ کی دعوت دی، اور ان کے ذریعہ جدید طب کے بنیادی قواعد قائم کیے، چنانچہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “اللہ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو” َ۔[بخاری]
چنانچہ یہ حدیث شریف مختلف قسم کی بیماریوں کے علاج کے موجود ہونے کی تاکید کرتی ہے، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر انسان علاج تلاش کرے گا تو اسے علاج مل جائے گا۔
کیا تمہارے سائنسداں وڈاکٹرز آج اس حدیث پاک پر ان بہت ساری بیماریوں کے علاج کی تحقیق و ریسرچ میں عمل نہیں کر رہے ہیں جن کے بارے میں ماضی میں یہ سوچا جاتا تھا کہ ان کا کوئی علاج نہیں ہے؟
ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے اللہ کے فرمان﴿ وَالسَّمَاءِ ذَاتِ الْحُبُكِ﴾[سورہ ذاریات: 7] (ترجمہ: اور عمدگی والے آسمان کی قسم) میں کائنات کی بناوٹ (cosmic Web) کے بارے میں گفتگو کی، اور اس میں جو عمدگی آئی ہے وہ محکم ومظبوط عمدہ بناوٹ سے پیدا ہوئی ہے۔
کیا تم نے اپنی اعلی مشینوں کے ذریعہ کائنات کی اس عمدہ بناوٹ کی تصویر نہیں دیکھی؟
آج تم یہ کہتے فخر کرتے اور اتراتے پھرتے ہو کہ کائنات کی تخلیق کے آغاز کا انکشاف ہم نے دریافت کیا ہے اور بتاتے ہو کہ یہ کائنات ایک کمیت (Mass) تھا کہ اس میں بڑا دھماکہ ہوا جس کی وجہ اس مادہ کے حصے الگ الگ ہوگئے، لیکن تم لوگ یہ بھول گئے کہ اسی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چودہ صدیوں قبل ہی اس کائناتی حقائق کے بارے میں بتا دیا تھا جبکہ روئے زمین پر کوئی بھی شخص ایسے بڑے دھماکے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اللہ سبحانہ وتعالی کا ارشاد ہے:
﴿أَوَلَمْ يَرَ الَّذِينَ كَفَرُوا أَنَّ السَّمَاوَاتِ وَالأرْضَ كَانَتَا رَتْقًا فَفَتَقْنَاهُمَا﴾[سورہ انبیاء: 30]
ترجمہ: کیا جن لوگوں نے کفر کیا نہیں دیکھا کہ آسمان اور زمین ملے ہوئے تھے پھر ہم نے ان کو الگ کر دیا۔
نیز اگر ہم چاہیں تو سیکڑوں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسے سائنسی حقائق کا شمار کرا دیں جن کا حال ہی میں انکشاف ہوا ہے جبکہ وہ سبھی قرآن مجید اور سنت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم میں چودہ سو سال پہلے ہی سے موجود ہیں۔
کیا آپ لوگوں کو اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کو جسے اللہ تعالی نے سارے جہانوں کے لیے رحمت بتایا ہے، تصور کرنے اور اس پر کوئی حکم لگانے سے پہلے ان کی کچھ احادیث وفرامین کا مطالعہ نہیں کرنا چاہیے؟
اسی لئے ہم بہرے پن سے دوچار شخص سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ خوبصورت آوازوں پر تنقید نہ کرے!
جیسا کہ ہم اندھے پن میں مبتلا انسان سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ عمدہ و خوبصورت تصاویر کو برا نہ کہے!
نیز زکام (coryza) میں مبتلا انسان سے بھی ہم یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ خوشبودار بو پر اعتراض نہ کرے!
یاد رکھیں کہ ہمارے نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شبیہہ ہمیشہ روشن، خوبصورت اور عمدہ واعلی رہے گی چاہے جتنی بھی شکوک وشبہات ڈالنے والے اس کو مسخ کرنے کی ناپاک کوششیں کر لیں، نیز ہمارے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی بات سب سے خوبصورت اور پیاری بات رہے گی چاہے ملحدین کچھ بھی کرلیں، اسی طرح قرآن مجید کی روشنی اور اللہ کا نور ہمیشہ چمکتا رہے گا چاہے جتنی بھی اہل باطل وکفار اسے بجھانے کی کوششیں کرلیں، کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی کا فرمان ہے:
﴿يُرِيدُونَ أَن يُطْفِئُوا نُورَ اللَّهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَيَأْبَى اللَّهُ إِلَّا أَن يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ (32) هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ﴾ [سورہ توبہ: 32-33]۔
ترجمہ: اللہ کی (روشن کی ہوئی) روشنی کو اپنے مؤوں (پھونکوں) سے بجھانا چاہتے ہیں، اور اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر نہ مانے اگرچہ کافروں کو ناگوار گزرے، (اللہ) وہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچے دین کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو سبھی دینوں پر غالب کر دے خواہ مشرکین کو ناگوار ہو۔
اے اللہ! تو ان سب سے زیادہ طاقت ور ہے، اور تو ان کو اور ان کے پیچھے کھڑے لوگوں کو جواب دینے، روکنے، اور ان سے حساب لینے پر قادر، کہ تونے ہی نے اپنی کتاب میں ارشاد فرمایا:
﴿إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُهِينًا * وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُبِينًا﴾ [سورہ احزاب: 57-58]۔
ترجمہ: بے شک جو اللہ اور اس کے رسول کو اذیت دیتے ہیں ان پر دنیا اور آخرت میں اللہ نے لعنت کی ہے اور اس نے ان کے لئے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے، اور جو ایمان والے مردوں اور ایمان والی عورتوں کو نا حق ستاتے ہیں تو انہوں نے اپنے سر بہتان اور کھلا گناہ لیا۔
اور ہم ان لوگوں سے وہی کہیں جو اللہ نے ارشاد فرمایا:
﴿قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ﴾ [سورہ توبہ:64]
ترجمہ: (اے نبی!) کہہ دو (ان سے کہ) اڑا لو مذاق، یقیناً اللہ کو ضرور ظاہر کرنا ہے جس کا تمہیں در ہے۔