1. مضامين
  2. رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لانے والے کے نام ایک پیغام
  3. وہ شخص جس نے قرآن کو چیلنج کیا تھا

وہ شخص جس نے قرآن کو چیلنج کیا تھا

1977 میں، کینیڈا کے پرجوش عیسائی مشنری (عیسائی مبلغ)، ٹورنٹو یونیورسٹی کے ریاضی ومنطق کے پروفیسر ڈاکٹر گیری ملر نے قرآن مجید میں سائنسی اور تاریخی غلطیوں کا انکشاف کرکے عیسائیت کے لیے ایک عظیم خدمت انجام دینے کا فیصلہ کیا، تاکہ اس کے ذریعہ اسے اور اس کے عیسائی مبلغین ساتھیوں کو مسلمانوں کو عیسایئت کی طرف لانے میں مدد مل سکے، لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس ہوا، چنانچہ وہ شخص جو قرآن پاک میں غلطیاں تلاش کرنے کے ارادے سے نکلا اس پر عدل وانصاف کی نظر غالب آ گئی پس ہوا یہ کہ قرآن عظیم کے متعلق اس پروفیسر کی تحریریں اور تبصرے اتنے بہتر سامنے آئے کہ بہت سے مسلمان بھی اس کے متعلق ایسا نہیں لکھ سکتے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے قرآن عظیم میں اچھی طرح سے غور وفکر کی اور اسے بہتر طور پر سمجھا جیسا کہ سمجھنا چاہیے اور اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ انسان کا کلام نہیں ہوسکتا۔

پروفیسر ملر کے لئے قرآن مجید میں سب سے پہلا حیرت انگیز مسئلہ اس کا چیلنج کرنے والا اسلوب تھا جو بہت سی آیات میں استعمال ہوا ہے، مثال کے طور پر ارشاد باری تعالی ہے:

﴿أَفَلاَ يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا﴾ [النساء: 82]۔

ترجمہ: بھلا وہ قرآن میں غور کیوں نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو یقیناً وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔


﴿وَإِن كُنتُمْ فِي رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلَى عَبْدِنَا فَأْتُواْ بِسُورَةٍ مِّن مِّثْلِهِ وَادْعُواْ شُهَدَاءكُم مِّن دُونِ اللّهِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ﴾ [البقرہ: 23]۔

ترجمہ:اور اگر تم کو اس (کتاب) میں جو ہم نے اپنے بندے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم) پر نازل فرمائی ہے کچھ شک ہو تو اسی طرح کی ایک سورت تم بھی لے آؤ اور اللہ کے علاوہ جو تمہارے مددگار ہوں ان کو بھی بلا لو اگر تم سچے ہو۔

 پروفیسر ملر گئے تو تھے قرآن پاک کو چیلینج کرتے ہوئے لیکن لوٹے اس سے حیران ومتاثر ہو کر۔

اب ہم مندرجہ ذیل میں پروفیسر ملر کی قرآن پاک میں غور و فکر کے کچھ نتائج پیش کرتے ہیں جیسا کہ انہوں اپنی کتاب “القرآن المذهل”میں بیان کیے ہیں:

(1) ڈاکٹر ملر کہتے ہیں: “دنیا میں ایسا کوئی مصنف نہیں ہے جو کوئی کتاب لکھے اور پھر اتنی جرأت کرے کہ وہ یہ چیلنج کرے کہ اس کتاب میں کوئی غلطی نہیں ہے، لیکن قرآن پاک کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے، یہ اپنے قارئین سے کہتا ہے کہ اس میں کوئی غلطی نہیں ہے، بلکہ تمہیں چیلنج کرتا ہے کہ اگر کوئی غلطی نکال سکو تو نکالو، اور تمہیں ہرگز کوئی غلطی نہیں مل سکتی”۔

(2) قرآن کریم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی  ذاتی زندگی کے ان مشکل واقعات ولمحات کا تذکرہ نہیں کیا جن سے وہ گزرے جیسے کہ ان کی پیاری اہلیہ خدیجہ رضی اللہ عنہ یا ان کی بیٹیوں یا بیٹوں کی وفات کا تذکرہ، بلکہ اس سے زیادہ حیرت کی بات یہ ہے کہ وہ آیات جو دعوت وتبلیغ کی راہ میں پیش آنے والی رکاوٹوں کے بعد نازل ہوتیں وہ انہیں فتح وکامیابی کی بشارت دیتیں جبکہ فتح وکامیابی کے بعد نازل ہونی والی آیتیں انہیں غرور وتکبر سے بچنے، مزید قربانیاں دینے اور بڑھ کر کوششیں کرنے کی دعوت دیتیں، اگر کوئی اپنی سوانح لکھتا ہے تو وہ اپنی فتوحات کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتا ہے اور اپنی شکستوں کی تاویلیں کرتا ہے، لیکن قرآن مجید نے اس کے برعکس کیا، اور یہ یکساں اور منطقی ہے، کیونکہ اسے کسی خاص دور کی تاریخ رقم نہیں کرنی تھی بلکہ اس کا اصل مقصد اللہ اور بندوں کے مابین تعلقات کے قوانین وقواعد قائم کرنا تھا۔

(3) ملر نے مندرجہ آیت:﴿ قُلْ إِنَّمَا أَعِظُكُم بِوَاحِدَةٍ أَن تَقُومُوا لِلَّهِ مَثْنَى وَفُرَادَى ثُمَّ تَتَفَكَّرُوا مَا بِصَاحِبِكُم مِّن جِنَّةٍ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ﴾ [ سورہ سبأ: 46] (ترجمہ: کہہ دو کہ میں تمہیں صرف ایک بات کی نصیحت کرتا ہوں کہ تم اللہ کے لئے دو دو اور اکیلے اکیلے کھڑے ہوجاؤ پھر غور کرو، تمہارے اس پیغمبر کو جنون نہیں ہے، وہ تو صرف تم کو سخت عذاب کے آنے سے پہلے ڈرانے والے ہیں۔) کے بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ایک اسکالر کے ذریعہ ٹورنٹو یونیورسٹی میں “اجتماعی گفتگو کی تاثیر” پر کیے گئے ایک تجربہ کی طرف اشارہ کیا، اس اسکالر نے متعدد ومختلف مقررین (تقریر اور بحث کرنے والے) بحث ومباحثہ میں جمع کیے اور نتائج میں موازنہ کیا، تو آخر میں وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ بحث ومباحثہ میں زیادہ کامیابی اور اس کی زیادہ تاثیر اس وقت ہوگی جبکہ بحث کرنے والوں کی تعداد دو ہو، اور تعداد اگر اس زیادہ ہوئی تو پھر بحث ومباحثہ کی تاثیر بھی کم جائے گی۔

(4) قرآن کریم میں “مریم" کے نام سے مستقل ایک سورت ہے جس میں حضرت مریم کی اتنی تعظیم وتکریم ہے کہ اس کی مثال کتاب مقدس بائبل میں نہیں ملتی، جبکہ حضرت عائشہ یا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہما کے نام پر کوئی سورت نہیں ہے، نیز قرآن مجید میں حضرت عیسی علیہ السلام کا نام پچیس مرتبہ آیا ہے جبکہ نبی کریم محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کا نام صرف پانچ مرتبہ آیا ہے۔

(5) منکرین وحی ورسالت کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ لائے ہیں وہ شیاطین انہیں لکھواتے تھے، حالانکہ قرآن پاک میں صاف فرما دیا گیا ہے:﴿وَمَا تَنَزَّلَتْ بِهِ الشَّيَاطِينُ * وَمَا يَنْبَغِي لَهُمْ وَمَا يَسْتَطِيعُونَ ﴾ [سورہ: شعراء: 211،210] ترجمہ: اور اس (قرآن) کو شیطان لے کر نہیں اترے، اور وہ اس قابل نہیں ہیں اور نہ ایسا کرنا ان کے بس کی بات ہے۔ تو کیا شیطان اسے لکھتے تو یہ کہتے کہ اسے لکھنا ہمارے بس کی بات نہیں ہے، بلکہ کیا یہ کہتے کہ: جب اس کتاب کو پڑھو تو مجھ سے اللہ کی پناہ مانگو؟؟

(6) اگر آپ پیغمبر اکرم -صلی اللہ علیہ وسلم- کی جگہ ہوتے جبکہ وہ اور ابو بکر غار (ثور) میں تھے اور مشرکوں نے ان کا اس طرح سے محاصرہ کر لیا تھا کہ اگر ان مشرکوں میں کوئی اپنے پیروں کی طرف نظر کر لیتا تو ان دونوں کو دیکھ لیتا، تو کیا حضرت ابو بکر کے خوف کا انسانی فطرتی ردِ عمل یہ نہیں ہوتا کہ: “چلیں باہر نکلنے کے لیے پیچھے کا کوئی راستہ تلاش کریں” یا آپ یہ کہتے کہ“بالکل خاموش رہو تاکہ تمہیں کوئی سن نہ لے۔” لیکن رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابوبکر رضی اللہ عنہ سے پرسکون طریقہ سے ارشاد فرمایا:﴿لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا﴾ [سورہ توبہ:40] ترجمہ:“ غم نہ کرو بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ ”تو کیا یہ جھوٹے اور دھوکے باز کی ذہنیت ہے یا یہ ایک نبی ورسول کی عقلیت ہے جسے اللہ کی عنایت پر پورا اعتماد وبھروسہ ہے۔

(7) سورہ مسد ابو لہب کے مرنے سے دس سال پہلے نازل ہوئی، یعنی اس کے پاس قرآن کو غلط ثابت کرنے کے لیے مکمل دس سال تھے، لیکن یہ چیلنج دیکھیے کہ قرآن پاک کی آیتیں برابر پڑھی جاتی رہیں اور آج تک پڑھی جا رہی ہیں لیکن ابو لہب دکھاوے تک کے لیے بھی ایمان نہ لایا، تو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اگر یہ پتہ نہ ہوتا کہ یہ قرآن وحی الہی ہے تو بھلا ان دس سالوں کی مدت میں انہیں یہ کیسے یقین رہتا ہے کہ جو کچھ ان کے پاس وہ حق ہے؟؟

(8) حضرت نوح علیہ السلام کے قصہ کے بعد مذکور اللہ تعالی کے فرمان:﴿تِلْكَ مِنْ أَنبَاء الْغَيْبِ نُوحِيهَا إِلَيْكَ مَا كُنتَ تَعْلَمُهَا أَنتَ وَلاَ قَوْمُكَ مِن قَبْلِ هَـذَا فَاصْبِرْ إِنَّ الْعَاقِبَةَ لِلْمُتَّقِينَ﴾ [سورہ ہود:49]۔

ترجمہ: یہ (جو ہم نے تم سے بیان کیا) غیب کی خبریں ہیں جو ہم تمہاری طرف وحی کرتے ہیں، اور اس سے پہلے انہیں نہ تم جانتے تھے اور نہ تمہاری قوم، تو صبر کرو، بے شک انجام پرہیزگاروں کا (بھلا) ہے۔

اس آیت پر تبصرہ کرتے ہوئے ملر لکھتا ہے: “کسی بھی مذہبی مقدس کتاب نے اس طرح کا اسلوب نہیں اپنایا ہے کہ وہ اپنے قارئین کو کوئی جانکاری فراہم کرے اور پھر اس سے کہے کہ یہ نئی جانکاری، یہ واقعی ایک انوکھا چیلنج ہے جس کی کوئی مثال نہیں، کیا ہوتا اگر اہل مکہ اگرچہ جھوٹ ہی میں یہ کہہ دیتے کہ ہم اسے پہلے سے جانتے تھے؟ کیا ہوتا اگر کوئی محقق یہ دعوی کر دیتا کہ یہ معلومات پہلے ہی سے معلوم تھیں؟ لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا”۔

آخر میں پروفیسر ملر نے اس طرف بھی اشارہ کیا جو جدید کیتھولک انسائیکلوپیڈیا میں موضو“" قرآن”کے تحت مذکورہ ہے اور بتایا کہ وحی قرآنی کی صداقت و حقانیت پر متعدد نظریات وکوششوں کے ذریعہ حملے کیے گئے، (مثال کے طور پر کہا گیا کہ قرآن بیمار انسان کے اوہام و خیالات ہیں، یا شیطانوں کے الہامات ہیں، یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کوئی انسان قرآن سکھاتا تھا، یا یہ کسی قدیم کتاب سے لیا گیا ہے وغیرہ وغیرہ) لیکن ان سب کے بارے میں اس انسائیکلوپیڈیا میں کہا گیا ہے: “ہر دور میں قرآن کے مصدر کے بارے میں متعدد ومختلف نظریے سامنے آئے ہیں، لیکن ان میں سے کسی نظریہ کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ یہ کسی عقلمند شخص کا نظریہ ہے۔”ڈاکٹر ملر کہتے ہیں: “در حقیقت کنیسہ (چرچ) ان نظریات میں سے کسی ایک کو اپنانا چاہتا تھا جو وحی کی صداقت کو رد کرتے ہوں، لیکن اسے خود ہی ان تمام نظریات کو جھٹلانا پڑا، لیکن اسی کے ساتھ اس میں اتنی جرأت بھی نہ تھی کہ مسلمانوں کے نظریہ کی سچائی کا اعتراف کرے بھی کہ قرآن مجید بلا شبہ آخری آسمانی وحی ہے”۔

مجھے نہیں معلوم کہ میں یہ کہوں کہ:“اے ڈاکٹر ملر اللہ تمہیں قرآن مجید کے اس منصفانہ تدبر پر جزائے خیر دے” ، یا پھر تمام نفرت انگیزیوں وشر پسندوں کو اس شخص کی تحریر کا مطالعہ کرنے کی دعوت دوں، یا پھر قرآنی معجزات میں دلچسپی رکھنے والوں اور اس کے مضمون نگاروں سے یہ گزارش کروں کہ وہ اپنے نصاب میں“(قرآن میں) غلطیاں نکالنے کی کوشش” کے موضوع کا بھی اضافہ کر لیں کہ جس سے قرآن پاک کے چلینج کا بھی ثبوت ہوتا ہے اور اس کے اس اعجاز کی بھی تصدیق ہوتی ہے کہ: ﴿وَلَوْ كَانَ مِنْ عِندِ غَيْرِ اللّهِ لَوَجَدُواْ فِيهِ اخْتِلاَفًا كَثِيرًا﴾ [النساء: 82] یعنی اگر یہ قرآن اللہ کے سوا کسی اور کا (کلام) ہوتا تو یقیناً وہ اس میں بہت زیادہ اختلاف پاتے۔

آخری تبصرہ

1977 میں، پروفیسر ملر نے عیسائیوں کے نمائندہ کے طور اسلامی مبلغ احمد دیدات کے ساتھ ہوئے عیسائی اور اسلام مذہب کے درمیان ایک مشہور مناظرہ میں شرکت کی، ان کی دلیل بڑی قوی اور واضح ہوتی، مذہبی تعصب پر حقیقت کی تلاش کا جذبہ غالب تھا، یہاں تک مناظرہ میں شریک بہت سے نوجوانوں نے یہ خواہش ظاہر کی کہ کاش یہ شخص مسلمان ہو جائے۔

1977 میں یہ واقعہ پیش آیا، اور 1978 میں ہی پروفیسر ملر نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کردیا اور اپنا عبد الأحد نام رکھ لیا، انہوں نے سعودی عرب کی یونیورسٹی برائے میں پٹرولیم ومعدنیات میں کچھ سال کام کیا اور پھر ٹیلی ویژن اور ریڈیو پروگراموں اور عوامی لیکچرز کے ذریعہ اسلام کی دعوت وتبلیغ کے لیے اپنی زندگی وقف کردی۔

کیا ابھی تک آپ یہ کہیں گے کہ آپ ہمارے آقا ومولی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پر ایمان نہیں لاتے؟؟


 

پچھلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day