1. مضامين
  2. رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لانے والے کے نام ایک پیغام
  3. کیونکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کی ایک خاتون کو اعزاز بخشا؟

کیونکر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی اسرائیل کی ایک خاتون کو اعزاز بخشا؟

چلیں ایک لمحہ کے لیے فرض کر لیتے ہیں کہ قرآن پاک نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی گڑھی ہوئی کتاب ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن سمجھتے ہیں، لیکن اب ہم یہاں ان تمام غیر مسلموں سے ایک سوال کرنا چاہتے ہیں۔

ہم ان سے پوچھتے ہیں: کیا آپ کو اس میں بھی شک ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک عربی انسان تھے؟


اب چاہے وہ اس سے متفق ہوں یا نہ ہوں، لیکن اتنا ضرور ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ایسے اعلی اسلوب اور ایسے عمدہ کلمات کے ذریعہ کہ جن سے سامعین کے دلوں و دماغوں میں ہلچل مچ جاتی ہے یہ بتایا کہ: “حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم جو بنی اسرائیل کی طرف منسوب ہیں  ان کو دنیا کی ساری خواتین پر چن لیا گیا ہے”۔


پس دنیا کی تمام خواتین پر جسے منتخب کیا گیا وہ نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ حضرت آمنہ، یا آپ کی بیوی، یا آپ کی بیٹی، یا کوئی اور عربی خاتون کیوں نہیں؟ بنی اسرائیل کی کیوں؟!! 


کیا کوئی اس کی وضاحت کر سکتا ہے؟ حالانکہ ہر کوئی اپنی ماں، بیوی اور بیٹی کو دوسری خواتین پر مقدم رکھتا ہے۔
تو کیا وجہ ہے کہ نبی اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کے مخالفین ودشمنوں کی قوم کی طرف منسوب ایک خاتون کو اتنا اعزاز بخشا؟! خاص کر پر بنی اسرائیل کی قوم کی خاتون کو؟! حالانکہ وہ ایسی قوم ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم عرب کو تین ہزار سالوں سے حقیر وکم تر سمجھتی آئی ہے ٹھیک ایسے ہی جیسے کہ آج سمجھ رہی ہے۔


سورہ مریم :


قرآن پاک میں ایک سورت ہے جس کا نام“مریم”ہے ، اس سورت کا یہ نام حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کے اعزاز کے طور پر انہیں کے نام سے رکھا گیا ہے۔
حضرت مریم کو یہ اعزاز بائبل (انجہل) میں بھی نہیں ملا ہے، پروٹسٹنٹ کی چھیاسٹھ (66) کتابوں اور رومن کیتھولک کی تہتر (73) کتابوں میں سے کوئی ایک بھی کتاب “مریم” یا ان کے بیٹے “عیسی” علیہما السلام کے نام سے نہیں ہے، ہاں “متی”، “مرقس”، “لوقا”، “یوحنا” اور“بولس” جیسے دیگر غامض ناموں کی آپ کو بہت سی کتابیں مل سکتی ہیں لیکن کوئی بھی کتاب آپ کو ایسی نہیں مل سکتی جو عیسی یا مریم علیہما السلام کی طرف منسوب ہو۔


چنانچہ اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم قرآن پاک کے مصنف ہوتے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی والدہ حضرت مریم کے ساتھ اپنی والدہ محترمہ حضرت آمینہ، یا اپنی عزیزہ اہلیہ حضرت خدیجہ یا حضرت عائشہ یا اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن اجمعین کا نام بھی شامل کر دیتے اور اس سے انہیں کوئی مانع نہ ہوتا۔
لیکن ہرگز نہیں، محال ہے کہ وہ ایسا کریں، اور ایسا ممکن بھی نہیں ہے، کیونکہ قرآن پاک محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے نہیں لکھا ہے۔
لہذا مذکورہ سوال کا بالکل آسان سا جواب ہے اوروہ  یہ ہے کہ: نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا اس (قرآن) میں بالکل بھی دخل نہیں، اور انہیں کو اس کا کچھ اختیار نہ تھا کہ وہ اپنی خواہش سے اس میں کچھ کہیں، کیونکہ قرآن کریم صرف وصرف اللہ سبحانہ وتعالی کا نازل کیا ہوا کلام ہے، کسی کا اس میں کوئی دخل و اختیار نہیں، چنانچہ اللہ پاک اسی قرآن میں ارشاد فرماتا ہے: ﴿ إِنْ هُوَ إِلاَّ وَحْيٌ يُوحَىٰ﴾  [سورہ نجم: 4]۔

ترجمہ: وہ (قرآن) نہیں ہے مگر (اللہ کی) وحی جو انہیں (محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کی طرف سے) کی جاتی ہے۔

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day