1. مضامين
  2. رسول اللہ ﷺ پر ایمان نہ لانے والے کے نام ایک پیغام
  3. انجیل برنباس: شاہد وشہید

انجیل برنباس: شاہد وشہید

اللہ کی حمد وثنا ہے کہ اس نے ہمیں سب سے عظیم نعمت سے نوازا ہے اور وہ عظیم نعمت ہے نعمت اسلام.....

ہمیں واقعتاً فخر ہےکہ ہم مسلمان، ساری کائنات میں سب سے اشرف واعلی ذات گرامی پیغمبر اسلام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متبع وپیروکار اور سب سے بہترین امت سے ہیں، یہی وہ امت اور یہی وہ نبی ہیں جن کی تمام نبیوں اور رسولوں نے اپنی اپنی قوموں کو بشارت و خوشخبری سنائی، اور اپنی اپنی قوموں سے یہ عہد وپیمان لیا کہ اگر وہ نبی اس زمانہ میں تشریف لے آئے تو ضرور تم ان پر ایمان لانا اور ان کی نصرت وحمایت کرنا، اسی لیے اس میں کوئی تعجب وحیرت کی بات نہیں ہے کہ انجیل میں بھی ہمیں اس طرف اشارہ اور ایسی بشارت مل جائے، اگرچہ دشمنوں نے اس میں کتنی ہی تحریف کر ڈالی ہو اور کتنی ہی حقیقت کو چھپانے کی کوشش کی ہو، کیونکہ سونے کو کتنی ہی دھول لگ جائے لیکن اس سے اس کی چمک دمک ختم نہیں ہوتی ہے، اور جیسا کہ میرے اسلامی بھائیوں! آپ جانتے ہیں کہ باطل وجھوٹ چاہے کتنا ہی بلند کیوں نہ ہو جائے لیکن ایک نہ ایک دن اس پر ضرور زوال آتا ہے، اور اللہ رب العزت حق کو ضرور ظاہر فرماتا ہے۔

برنباس کون تھا ؟

برنباس حضرت عیسی علیہ السلام کے ایک حواری وشاگرد، حق وسچ کی گواہ اور کلمہ حق کی وجہ سے ملزم انجیل کے مصنف ہیں، لہذا اسے اس حق بیانی کی یہ جزا ملی کہ اسے 492 عیسوی میں پوپ گیلیسئس کے حکم پر کتاب مقدس (بائبل) سے خارج کر دیا گیا اور اس پر پابندی لگا دی گئی؛ کیونکہ اس کے اندر بائبل میں مذکور حضرت مسیح علیہ السلام کی الوہیت کے باطل عقیدہ کی مخالفت کی گئی تھی، لیکن جب لاطینی راہب فرامرینو کو اپنے دوست کی ایک خاص لائبریری میں برنباس کی یہ انجیل ملی اور اس نے اسے پڑھا تو اسلام قبول کر لیا جیسا کہ مسیحی پروفیسر خلیل سعد نے انجیل برنباس پر اپنے مقدمہ میں بیان کیا ہے...

اور رہی برنباس کی بات تو عہد جدید کی کتابوں میں اس کے تعلق سے بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایک سچا اور ایماندار انسان تھا اور حضرت عیسی علیہ السلام کے حواریوں و شاگردوں میں سب سے زیادہ متقی وپرہیزگار اور ان کی وصیتوں وتعليمات کا سب سے بڑا حافظ تھا، چنانچہ سفر اعمال رسول، اصحاح (باب): 11 فقرہ نمبر:  22-24 میں ہے:

“پس ان کے بارے میں یہ خبر یروشلم کے چرچ کے پاس سنی، تو انہوں نے  برنباس کو کہلا بھیجا کہ وہ یہاں سے دور انطاکیہ چلے جائیں، وہ کہ جو جب وہ آئے اور اللہ کے فضل کو دیکھا تو خوش ہوئے اور سب کو نصیحت کی کہ وہ دل سے رب کے ساتھ وابستہ رہیں؛ کیونکہ وہ ایک نیک، پاک روح اور ایمان سے بھرپور آدمی تھے، چنانچہ کثیر تعداد میں لوگ اللہ کے لیے جمع ہو گئے”۔

اب میں آپ سے خدا کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کہ اگر برنباس کی دعوت توحید اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر قائم نہ ہوتی جو کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم تک آنے والے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کا دین ہے اور جو عقل وفطرت اور رحمت کا مذہب ہے، تو کیا اس کے کہنے پر اللہ کے لیے کثیر تعداد میں لوگ جمع ہوتے؟!

خدا کی قسم! برنباس کا عقیدہ اگر وہ عقیدہ ہوتا  جو آج نصاری کا ہے جسے سے کوئی عقل سلیم قبول نہیں کرتی تو ہرگز اس کی دعوت پر اللہ کے لیے یہ تعداد جمع نہ ہوتی، بلکہ ان امور وعقائد کہ جنہیں کوئی عقل تسلیم نہیں کرتی ہے ان میں سے صرف عقیدہ تثلیث کی وضاحت اور سمجھانے میں اسے سیکڑوں سالوں کی ضرورت ہوتی اور پھر بھی نہ سمجھا پاتا، لیکن اس نے ان کی فطرت کو مخاطب کیا اور اسی دین حق کی دعوت دی جو حضرت موسی، حضرت عیسی، حضرت محمد اور دیگر انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام اجمعین لے کر آئے۔

انجیل برنباس:

ذیل میں اس کتاب کی کچھ باتیں درج ہیں۔

چھیانویں فصل، پیراگراف: 15-1، صفحہ:146 پر ہے:

(1) جب نماز ختم ہوئی تو پادری نے اونچی آواز میں کہا: “رکو اے یسوع! کیوں کہ ہمیں اپنی قوم کے اطمینان وسکون کے لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آپ کون ہیں؟”

(2) یسوع نے جواب دیا:“ میں داود کی نسل سے مریم کا بیٹا یسوع (عیسی علیہ السلام) ہوں، ایک ایسا آدمی ہوں جسے فنا ہونا ہے اور جو خدا سے ڈرتا ہے، اور میں چاہتا ہوں کہ مجد وشرف اور عزت وتعظیم صرف اللہ ہی کو دی جائے” ۔

(3) پادری نے جواب میں کہا: “موسی کی کتاب میں لکھا ہے کہ ہمارا خدا ہمارے پاس ایک مسیحا بھیجے گا جو ہمیں یہ بتانے آئے گا کہ اللہ ہم سے کیا چاہتا ہے اور وہ سارے عالم کے لیے اللہ کی رحمت لے کر آئے گا۔

(4) لہذا برائے کرم آپ ہمیں سچ بتائیے کہ کیا آپ ہی اللہ کے مسیحا (یعنی اللہ کے رسول) ہیں جن کا ہمیں انتظار ہے؟”

(5) یسوع نے جواب دیا: “یہ سچ ہے کہ اللہ نے ایسا وعدہ کیا ہے، لیکن میں وہ نہیں ہوں، کیونکہ وہ (حقیقت وباطن میں تو) مجھ سے پہلے پیدا ہو کیے جا چکے ہیں لیکن (ظاہری طور پر وہ) میرے بعد تشریف لائیں گے”۔

(6) پادری نے جواب میں کہا:“آپ کے اقوال ومعجزات  سے ہم یقیناً آپ کو اللہ کا نبی وبرگزیدہ بندہ مانتے ہیں، اس لئے میں آپ کو تمام یہود اور اسرایل کا واسطہ دے کر پوچھتا ہوں کہ آپ خدا کی محبت کے لئے ہمیں بتائیے کہ کس طرح وہ مسیح آئے گا؟ ”

(8) یسوع نے جواب دیا:“ اس اللہ کی قسم جس کی بارگاہ میں کھڑا ہوں میں وہ مسیحا (نبی) نہیں ہوں جس کا روئے زمین کے سارے قبائل کو انتظار ہے جیسا کہ اللہ نے ہمارے والد ابراہیم علیہ السلام سے یہ فرماتے ہوئے وعدہ کیا ہے کہ:“تمہاری نسل سے میں زمین کے تمام قبائل میں برکت فرماؤں گا”۔

(9) لیکن جب اللہ مجھے اس دنیا سے اٹھا لے گا تو شیطان ایک بار پھر ملعون فتنہ برپا کرے گا کہ وہ تقوی سے خالی شخص کو یہ اعتقاد رکھنے پر ورغلائے گا کہ میں اللہ ہوں اور اللہ کا بیٹا ہوں۔

(10) پس اس وجہ سے میری باتیں اور میری تعلیمات ناپاک ہو جائیں گی یہاں تک تیس مومن تک باقی نہ رہ سکیں گے۔

(11) پھر اللہ دنیا پر رحم وکرم فرمائے گا اور اپنے اس رسول کو بھیجے گا جس کے لیے اس نے ساری چیزوں کو پیدا فرمایا۔

(12) جو طاقت کے ساتھ جنوب سے آئے گا اور بتوں اور بت پرستوں کو ختم کردے گا۔

 (13) اور شیطان کا انسانوں پر سے اقتدار ختم کر دے گا۔

(14) اور جو لوگ اس (رسول) پر ایمان لائیں گے وہ ان کی نجات کے لیے اللہ کی رحمت لائے گا۔

 (15) اور جو بھی اس کی باتوں پر ایمان لائے گا وہ بابرکت ہوگا”۔

اور جہاں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت و خوشخبری کی بات ہے تو اسی انجیل میں آقائے کریم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا آپ کے نام اور آپ کے اوصاف کے ساتھ ذکر ہوا، چنانچہ ستانویں فصل، پیراگراف: 15-4 میں ہے:

“پھر یسوع نے کہا: “تمہاری باتوں سے مجھے تسلی نہیں مل رہی ہے، کیونکہ جہاں تمہیں روشنی کی امید ہے وہاں اندھیرا آئے گا، لیکن میری تسلی وسکون تو رسول کے آنے میں ہے، جو میرے تعلق سے ہر جھوٹی رائے کو ختم کردے گا، اور اس کا دین پھیلے گا یہاں تک ساری دنیا کو اپنی آگوش میں لے لے گا، کیونکہ اللہ نے ہمارے والد ابراہیم سے اسی طرح کا وعدہ کیا ہے، اور جو چیز مجھے تسلی دیتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کا دین کبھی ختم نہیں ہوگا؛ کیونکہ اللہ اسے صحیح وسلامت باقی رکھے گا اور اس کی حفاظت فرمائے گا”۔

پادری نے جواب میں کہا:“اللہ کے اس رسول کے آنے کے بعد کیا دوسرے رسول بھی آئیں گے؟”

یسوع نے جواب دیا: “اس کے بعد اللہ کی طرف بھیجے گئے سچے نبی نہیں آئیں گے، لیکن بہت سے جھوٹے نبی آئیں گے، اور اسی کا مجھے دکھ ہے، کیونکہ شیطان اللہ کے حکم انصاف کی بنیاد پر انہیں ورغلائے گا اور وہ میری انجیلی خوشخبری کے دعوے کی آڑ میں خود کو چھپائیں گے”۔

مزید یہ کہ مذکورہ بالا فصل کے پیراگراف: 13-18 میں پیغمبر اکرم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام کا ذکر ہے:

“ تب پادری نے کہا: “اس مسیحا کا کیا نام ہے اور اس کے آنے کی کیا نشانی ہے؟”

یسوع نے جواب دیا:“بے شک مسیحا کا نام شاندار (وقابل تعریف) ہے، کیوں کہ اللہ نے خود ہی ان کا یہ نام رکھا ہے کہ جب اس نے انہیں پیدا کیا اور آسمانی شان میں رکھا، تو ارشاد فرمایا:  صبر کرو اے محمد! کیونکہ آپ کی خاطر، میں جنت دنیا اور بہت سی مخلوق پیدا کرنا چاہتا ہوں جسے میں تمہیں عطا کروں گا، پس اس میں سے جو آپ پر برکت بھیجے گا (ایمان لائے) وہ برکت والا ہوگا، اور جو تم پر لعنت کرے گا وہ ملعون ہوگا، اور جب میں آپ کو دنیا میں بھیجوں گا تو (لوگوں کی) نجات کے لیے آپ کو اپنا رسول بناؤں گا، اور آپ کا کلمہ اتنا سچا (وبلند و مضبوط) ہوگا کہ آسمان وزمین تو کمزور پڑ جائیں گے مگر تمہارا ایمان کبھی کمزور نہ پڑے گا، بے شک ان کا مبارک نام محمد ہے”۔

تو سامعین نے بلند آواز میں پکارا:“ اے اللہ! ہمارے پاس اپنا (وہ) رسول بھیج دے، اے محمد! جلد دنیا کی نجات کے لیے تشریف لے آئیے!”۔

آخر میں اب ہم صرف اللہ عزوجل کا ارشاد ہی پڑھ سکتے ہیں:

﴿قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۚ فَإِن تَوَلَّوْا فَقُولُوا اشْهَدُوا بِأَنَّا مُسْلِمُونَ﴾ [سورہ آل عمران:64]

ترجمہ: تم فرماؤ، اے کتاب والو! ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں اور تم میں یکساں ہے، (وہ) یہ کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں، اور ہم میں کوئی اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ بنالے، پھر اگر وہ نہ مانیں تو کہہ دو تم گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں۔

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day