1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو

اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو

1961 2020/06/25 2024/11/15
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी

حصین بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہما کو منبر پر بیان کرتے ہوئے سنا:" میرے والد نے مجھے کچھ عطیہ دیا، تو عمرہ بنت رواحہ  ( نعمان کی والدہ) نے کہا کہ جب تک آپ رسول اللہ ﷺ کو اس پر گواہ نہ بنائیں میں راضی نہیں ہوسکتی، چنانچہ وہ اللہ کے رسول ﷺ کے پاس حاضر ہوئے اور عرض کیا: عمرہ بنت رواحہ سے اپنے بیٹے کو میں نے ایک عطیہ دیا تو انہوں نے کہا کہ پہلے میں آپ کو اس پر گواہ بنالوں، آپ ﷺ نے دریافت فرمایا: " اسی جیسا عطیہ تم نے اپنی تمام اولاد کو دیا ہے؟" انہوں نے جواب دیا: " نہیں" اس پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: " اللہ سے ڈرو اور اپنی اولاد کے درمیان انصاف کو قائم رکھو۔" چنانچہ وہ لوٹ کر آئے اور اپنا دیا ہوا عطیہ واپس لے لیا۔

غرض بچوں کے درمیان عدل وانصاف کرنا واجب وضروری ہے جبکہ اس کے نہ ہونے کی صورت میں کسی طرح کا نقصان یا رشتہ میں درار پڑنے کا خدشہ ہو جسی کی اکثر توقع ہوتی ہے۔

لہذا جب بچوں کے درمیان عدل وانصاف سے کام لینا واجب وضروری ہے تو والد کے لیے بنا ان کی اجازت ورضامندی کے کسی بھی بچے کے ساتھ کسی طرح کا امتیازی رویہ اختیار کرنا جائز نہیں ہے۔

متعدد روایتوں سے اس حدیث پاک میں بچوں کو عطیہ دینے میں عدل وانصاف سے کام لینے کی تاکید فرمائی گئی جب تک کہ کوئی ایسی ضرورت شرعیہ نہ ہو جو ان میں تفریق وامتیاز کا تقاضا کرے، کیونکہ ضرورتوں کی وجہ ممنوعہ چیزیں جائز ہوجاتی ہیں جیسا کہ کتاب وسنت سے معلوم ہے۔

عطیہ  پر قیاس کرتے ہوئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ جہاں تک ہو سکے سارے معاملات میں بھی یکساں سلوک برتنا چاہیے تاکہ ان میں بغض وعداوت نہ پھیلے، کیونکہ اولاد میں کسی ایک کو ترجیح وفوقیت دینا ہے کبھی کبھی ان کے مابین نفرت کا باعث ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے ان میں ایک دوسرے سے بغض وحسد ہو جاتا ہے، اور پھر ان میں لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، جو یقیناً ماں باپ نہیں چاہتے ہیں حالانکہ وہی ان کا سبب ہوتے ہیں۔

چنانچہ والدین کو چاہیے کہ وہ بہترین تربیتی طریقوں سے اپنے بچوں کے درمیان آپسی پیار ومحبت اور باہمی سمجھ بوجھ پیدا کریں، اس  کا سب سے اہم طریقہ یہ بھی ہے کہ جہاں تک ہو سکے ان کے درمیان یکساں اور برابر برابر سلوک کریں۔

اسے بھی ذہن میں رکھیں کہ کوئی بھی چیز تقسیم کرتے وقت برابر برابر تقسیم کریں، اور یاد رکھیں کہ اگر کسی کو کچھ دے کر  کسی جہت سے بلند کر دیا جاتا ہے تو  کسی دوسری چیز سے محروم کرکے گرا  بھی دیا جاتا ہے اور اللہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہتا ہے اپنی زمین کا وارث ومالک بناتا ہے،( اور اللہ جسے چاہتا ہے بے حساب عطا  فرماتا ہے)۔

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day