1. مضامين
  2. ۳۰ نبوی وصیتیں شب زفاف کی زوجین کے لیے
  3. (3) تیسری وصیت : شادی کے دن جائز لہو ولعب کرنا

(3) تیسری وصیت : شادی کے دن جائز لہو ولعب کرنا

مصنف : ابو مریم مجدی فتحی السید
1087 2019/11/11 2024/11/15
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية Français हिन्दी

حضور ﷺنے شب زفاف میں زوجین کے لیےجو وصیتیں کی ہیں انہی میں سے جائز لہو ولعب کرنا بھی ہے۔

چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالٰی عنہا  سے مروی ہے آپ ایک بیوی کو شب زفاف میں ایک انصاری مرد کے پاس لے کر گئیں، تو حضور ﷺنے ارشاد فرمایا :" اے عائشہ، اس دن تمہارے ساتھ کوئی لہو (دف بجانے والا) کیوں نہیں تھا؟ كيونكه انصار  اس کو بہت پسند کرتے ہیں!"۔ [1]

اور دوسری روایت میں ہے کہ آپ ﷺنے حضرت عائشہ  سے فرمایا" تمہارے پاس جو یتیمہ لڑکی تھی تم نے اس کا کیا کیا؟" تو حضرت عائشہ  نے عرض کی یا رسول اللہ ہم نے اسے  اس کے شوہر کو ہبہ کر دیا، آپ ﷺنے ارشاد فرمایا :" کیا تم نے اس کے ساتھ کسی لڑکی کو بھیجا جو دف بجا کر کچھ گاتی؟" حضرت عائشہ  نے عرض کی وہ کیا گاتی؟ آپ نے ارشاد فرمایا وہ کہتی :"

ہم تمہارے پاس آۓ، ہم تمہارے پاس آۓ

تم ہمارا   خير مقدم کرو ہم تمہارا  خير مقدم کریں

اگر  سرخ رنگ کا سونا نہ ہوتا تو گاؤں کے لوگ تمہارے پاس نہ آتے

اگر بھورے رنگ کی گندم نہ ہوتی تو تمہاری بیٹیاں صحت مند نہ ہوتیں۔ [2]

حضرت ربیع بنت معوذ رضی اللہ عنہا   فرماتی ہیں:

"  میری شب زفاف کی  صبح حضورﷺمیرے پاس تشریف لائے اور میرے بستر پر اس جگہ تشریف فرما ہوئے جہاں تم بیٹھے ہو، تو کچھ بچیاں دف بجا کر جنگ بدر میں شہید ہونے والے ہمارے اہل خانہ کے لیےمرثیہ پڑھنے لگیں یہاں تک کہ ایک  بچی نے کہا :" اور ہمارے درمیان ایسے نبی جلوہ گر ہیں جو یہ جانتے ہیں کہ کل کیا ہوگا "، تو حضور ﷺنے ارشاد فرمایا :" اس کو چھوڑو اور وہی پڑھو جو تو پڑھ رہی تھیں"۔

  ابن سعد نے "طبقات الکبری" (8\ 447)میں بیان کیا ہے کہ" ربیع بنت معوذ" کی شادی اس وقت "  ایاس بن البکیر" سے ہوئی اور ان سے ایک بیٹا ہوا جس کا نام" محمد بن ایاس" تھا۔

حدیث شریف میں آیا ہے" كَمَجْلِسِكَ مِنِّي " یعنی سرکا ر ﷺاس جگہ تشریف فرما ہوئے جہاں اب تم بیٹھے ہو، اور یہ بیٹھنا یا تو پردے کے ساتھ تھا یا یہ واقعہ آیت حجاب کے نزول سے پہلے کا ہے، یا اس پر محمول کیا جائے گا کہ حاجت کے وقت یا فتنہ سے امن کے وقت اجنبیہ کو دیکھنا جائزہے۔

علامہ ابن حجر فرماتے ہیں:" یہی آخری شق معتبر ومعتمد ہے، اور دلائل قویہ سے یہ بات ثابت ہے کہ اجنبیہ عورت کے ساتھ خلوت اختیار کرنا اوراس کی طرف دیکھنا حضور ﷺکی خصوصیات سے ہے، اور یہی صحیح جواب ہے ام حرام بنت ملحان کے قصے کا کہ آپﷺ کا ان کے پاس  جانا،  آرام كرنا اور ان كا  آپ کے سر میں جوں تلاشنا، جبکہ وہ نہ تو آپ کے لیےمحرمہ تھیں اور نہ آپ کی بیوی۔

اور الکرمانی نے یہ کہا ہے کہ ہو سکتا ہے لفظ " كَمَجْلِسِكَ" لام کے فتح کے ساتھ ہو، یعنی سرکار تمہارے بیٹھنے کی طرح بیٹھے، تو اس وقت کوئی اشکال باقی نہیں رہے گا۔ [4]

اور " وَيَنْدُبْنَ"، "ندبة" بضم نون سے مشتق ہے، یعنی میت کی تعریف کرتے ہوئے اس کے اچھے اوصاف کرم وشجاعت کو بیان کرنا، اور یہ چیز میت کی یاد کو تازہ کرتی ہے۔

اور اس وصیت سے مندرجہ ذیل احكام معلوم ہوتے ہیں :

(1) نکاح کا اعلان کرنا، اور اس میں دف بجانا مستحب ہے۔

(2) شادی کی صبح  دف  سننا    جائز  ہے۔

(3)مخلوق میں سے کسی کے لیےعلم غیب کی نسبت کی حرام ہے۔

(4) امام وحاکم کوشادی میں شرکت کرنا چاہیے اگرچہ اس میں ایسا لہو و لعب ہو جو حد شرع سے باہر نہ ہو۔

(5) کسی انسان کی اس کے سامنے تعریف کرنا  جائز  ہےجبکہ یہ ایسے اوصاف پر مشتمل نہ ہو جن کا وہ حامل نہیں ہے۔



[1]  حدیث صحیح ،  بخاری (5162)،حاکم  (2/184)،وبیہقی "سنن کبری" (7/288) ۔

[2] 2 یہ حدیث حسن لغیرہ ہے،  اسےامام طبرانی نے  اپنی کتاب " الأوسط"  روایت کیا ہے جیسا کہ " المجمع" (2/280) ہے،  اس میں اس کی سند ضعیف ہے، لیکن حضرت انس بن مالک، جابر، وابن عباس ،اور عائشہ - رضی اللہ عنہم - سے اس پر شواہد موجود ہیں۔

 

 [3]یہ حدیث صحیح ہے،  بخاری  (4001)،(5147)،ابو داود  (4922)،ابن ماجہ  (1897)،بغوی  " شرح السنة" (2265) ، بیہقی  (7/289)، ابن سعد  " طبقات" (8/477)، اور امام احمد نے لفظ "أما هذا فلا تقولوه" کے ساتھ (2/360) اور امام ترمذی نے  لفظ"اسكتي عن هذا وقولي الذي كنت تقولين" کے ساتھ (1096)  اس کی تخریج کی ہے۔

 

[4] فتح الباري (9/203)

 

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day