1. مضامين
  2. الله كےرسول محمدﷺكى ذات گرامي
  3. محمد ﷺجنگ میں (با اخلاق مجاہد)

محمد ﷺجنگ میں (با اخلاق مجاہد)

1238 2020/11/07 2024/11/22
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English Français Deutsch Español Italiano Русский

جنگ میں دشمن فوجوں کے ساتھ آپ کے عمدہ اخلاق:

نبی اکرم ﷺاپنے بلند و بالا اخلاق اور  قرآن مقدس کی تعلیمات پر عمل کرتے ہوئے جنگ میں کسی کو دھوکہ نہیں دیتے تھے اگرچہ وہ آپ کا دشمن ہی کیوں نہ ہو، اور نہ ہی وہ کسی سے کیا ہوا اپنا کوئی معاہدہ توڑتے تھے جب تک کہ وہ خود نہ توڑ دے، جیسا کہ آپ ﷺدشمنوں کے ساتھ جنگ میں جنگ کے زخمیوں اور قیدیوں کو اذیتیں نہیں دیتے اور نہ ہی ان کے جسم کے اعضاء کاٹ کر انکی صورتیں بگاڑتے خواہ آپ ﷺکی فتح ہوتی یا آپکے دشمن کی جیت، بلکہ وہ اپنے مجاہدین اور اپنے لشکر کے سپاہ سالاروں کو بھی ایسا کرنے سے منع فرماتے تھے اگرچہ کچھ بھی ہو جائے۔

اور اس طرح آپ ﷺاور آپ کے پیروکاروں نے دوران جنگ عمدہ اخلاق پیش کر کر پوری انسانیت کے لیے ایک بہترین مثال قائم کی۔

 دشمن لشکر کی صف میں رہنے والی خاتون کے ساتھ آپ کے عمدہ اخلاق:

یہ حیرت انگیز مثال پڑھیں جو دل و دماغ کو ہلا کر اور جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہے۔

چنانچہ محمد ﷺکی اپنے دشمنوں کے ساتھ خطرناک جنگوں میں سے ایک جنگ میں آپ کے لشکر کے ایک مجاہد نے جو آپ کی بارگاہ کا تربیت یافتہ تھا یعنی آپ ﷺکے چچا زاد بھائی حضرت علی ابن ابی طالب رضی اللہ تعالی عنہ نے ایک نقاب پوش دشمن سپاہی کو دیکھا کہ وہ رسول اللہ ﷺکے لشکر کے زخمیوں اور شہیدوں کے درمیان گھوم رہا ہے اور انکے جسموں کے اعضاء کاٹ کر ان کی صورتیں بگاڑتا پھر رہا ہے یہاں تک کہ اس نے ان کے سب سے قریبی یعنی ان کے اور ان کے قائد اعظم سرور کائنات اللہ کے رسول ﷺکے چچا حضرت حمزہ رضی اللہ تعالی عنہ کے اعضاء کو کاٹ کر ان کا بھی مثلہ کر دیا، چنانچہ اس منظر نے انہیں بہت غضبناک کر دیا اور انہوں نے اس نے سپاہی کو مار کر اس سے بدلہ لینے کا ارادہ کیا، اور وہ فوری طور پر تیز تیر کی طرح اس کے پاس پہنچ گئے، لیکن جیسے ہی اسے مارنے کے لیے انہوں نے اپنی تلوار اٹھائی وہ یہ دیکھ کر حیران ہو گئے کہ وہ مرد کا لباس پہنے ہوئے ایک دشمن عورت ہے، یہاں آپ اس عجیب منظر اور محمد ﷺکے مجاہدین کے اعلی نظریات پر توجہ کریں، چنانچہ دشمن کے سر پر تلوار اٹھانے کے انہیں لمحات میں آپ ﷺکے اس مجاہد نے بدلہ لینے اور ان اعلی نظریات کے درمیان توازن کر لیا جو اس نے آپ  کے یہاں سیکھے تھے، چنانچہ اس کے نفس پر آپ ﷺکی دی ہوئی تربیت غالب آ گئی لہذا اس نے اپنی تلوار کو نیچے ڈالا اور اپنے غصہ کو دور کر دیا، اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ اتنا برا سلوک کرنے کے باوجود بھی اس عورت کو ایسے ہی چھوڑ دیا۔

تو دیکھو یہ کیسے عظیم اخلاق ہیں؟!! اور یہ کیسے بلند نظریات ہیں ؟!! یہ کس طرح کی عظمت ہے؟!!!  دشمن ہونے کے باوجود بھی، عورت کا کیسا احترام اور اس پر کیسا رحم و کرم ہے؟!!! یہ صرف نبی کریم محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  اور آپ کے پیروکاروں کی عظمت ہے، اور اس مذہب اسلام کی عظمت ہے جس نے ان کو یہ نظریات دیئے۔

قیدیوں کے ساتھ آپ ﷺکے اخلاق :

انسانی حقوق کے بیانات اور بین الاقوامی معاہدوں کے باوجود، قیدی اب بھی نفسیاتی اور جسمانی اذیت اور انسانی حقوق کی پامالی کی دلدل میں پھنسا کرہا رہا ہے۔

لیکن 14 صدیوں سے پہلے ہی، اللہ کے رسول محمد ﷺنے پوری دنیا کو جنگ کے قیدی کے ساتھ برتاؤ کرنے کا ایک عظیم قانون اور خوبصورت نظام عطا کیا اگر اس پر عمل کیا جائے تو اس حیران دنیا میں قیدیوں کو ان تکلیفوں اور مصیبتیں سے نجات مل جائے گی جو ہر زندہ ضمیر اور عمدہ اخلاق والے کے جذبات کو جھنجھوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔

اور وہ قانون یہ ہے کہ نبی اکرم محمد ﷺنے کسی بھی وجہ سے قیدیوں کے حقوق کو پامال کرنے سے سختی سے منع فرمایا ہے۔

چنانچہ آپ ﷺکے نزدیک جسمانی یا نفسیاتی طور پر طور پر قیدی کو اذیت پہنچانا سخت منع ہے، اور اسے برا بھلا کہنا اور گالی دینا بھی جائز نہیں ہے اور اسی طرح اس کا کھانا پینا بند کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

بلکہ، قیدی پر نبی اکرم محمد ﷺ اور آپ کے پیروکاروں کی رحمت کا عالم یہ تھا کہ وہ قیدی کو اپنے کھانے پینے پر کو ترجیح دیتے تھے، نبی اکرم ﷺاور آپ کے پیروکاروں کی زندگی میں آپ کو ایسی مثالیں بہت مل  جائىں گی،

انہیں میں سے ایک وہ کہ جس کے بارے میں آسمان سے سے قرآن کریم نازل ہوا اور اس عمل کی مدح سرائی کی، چنانچہ نبی اکرم ﷺکے پیروکاروں کی تعریف کرتے ہوئے قرآن کریم فرماتا ہے:

وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَىٰ حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا  (الإنسان :8)

(اور کھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور قیدی کو)

یعنی محمد ﷺاور ان کے پیروکار کھانے میں قیدی کو اپنے اوپر ترجیح دیتے ہیں، یعنی اسے کھلا دیتے ہیں حالانکہ انہیں خود اس کھانے کی سخت ضرورت ہوتی ہے۔

چنانچہ آج اس زمانے میں قیدیوں کو نبی اکرم محمد ﷺاور ان کی تعلیمات کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے زخموں کو بھریں اور  ان کے آنسوؤں کو پونچھیں، اور انہیں ان کے حقوق بلکہ ان کی انسانیت واپس دلوائیں جو تباہ کن ہتھیار اور جھوٹے ناموں پر مبنی گندی جنگوں کی تہذیب نے ان سے چھین لی ہے۔

اور آخر میں اب ہم یہ کہتے ہیں کہ عصر حاضر کی تہذیب و ثقافت کے مقابلے میں نبی اکرم محمد ﷺپر مکمل طور پر ہمیں فخر کرنا چاہئے کیونکہ نہ صرف ادعائی اور شعاری طور پر جیسا کہ آج کے ممالک کر رہے ہیں بلکہ عملی طور پر انہیں انسانی حقوق کی رعایت کرنے میں سب پر فوقیت حاصل ہے، چنانچہ ہمارا پوری دنیا کو چیلنج ہے کہ نبی کریم محمد ﷺکی زندگی میں ایک بھی ایسی مثال دکھادے کہ جس میں قیدی کو جسمانی یا نفسیاتی اذیت و تکلیف دے کر اس کے حقوق کی پامالی کی گئی ہو۔

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day