1. مضامين
  2. الله كے رسول كى وصيتىں
  3. جو کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ (یعنی میانہ روی اختیار کرو)

جو کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ (یعنی میانہ روی اختیار کرو)

1044 2020/06/17 2024/12/18
مضمون کا ترجمہ.......... زبان میں کیا گیا ہے : العربية English हिन्दी

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے وہ کہتی تھیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :" جو کام کرو ٹھیک طور سے کرو اور حد سے نہ بڑھ جاؤ  (یعنی میانہ روی اختیار کرو) اور خوش رہو اور یاد رکھو کہ کوئی بھی اپنے عمل کی وجہ سے جنت میں نہیں جائے گا۔" صحابہ نے عرض کیا: اور آپ بھی نہیں یا رسول اللہ!؟  فرمایا: "  اور میں بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ اپنی مغفرت ورحمت کے سایہ میں مجھے ڈھانپ لے، اور جان لو کہ میرے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے خواہ کم ہی کیوں نہ ہو۔

نبی کریم ﷺ ہمیشہ اپنے صحابہ کرام کو قول وفعل میں درستگی ومیانہ روی کا حکم دیتے تھے جیسا کہ قرآن مجید میں اللہ تبارک وتعالی نے دیا ہے، چنانچہ اس کا فرمان عالی شان ہے:

﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوۡلُوۡا  قَوۡلًا  سَدِیۡدًا ﴾(سورہ أحزاب: 70)

ترجمہ: اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کرو۔

 قول وکلام میں درستگی مطلب یہ ہے کہ وہ سچ بات کرے اور فعل وکام میں درستگی مطلب یہ ہے کہ وہ اسے ٹھیک طرح سے کرے، لیکن اگر وہ اپنے قول اور کلام میں پوری طرح سچ کا دامن نہیں تھام سکتا تو حتی الامکان اپنے وسعت کے مطابق اس میں سچا رہنے کی کوشش کرے اور اپنے آپ کو حرج ومصیبت میں نہ ڈالے اس کی مثال إن شاء الله ہم آگے بیان کریں گے، اور اسی طرح اگر وہ پورا کام ٹھیک طرح سے نہیں کر سکتا ہے تو حتی الامکان جتنا ہو سکے اپنی حیثیت کے مطابق اسے ٹھیک کرنے کی کوشش کرے، کیونکہ جو چیز پوری حاصل نہیں ہو سکتی  اسے پوری طرح سے نہیں چھوڑ دینا چاہیے بلکہ جتنی مل جائے لے لینا چاہیے۔

مثال کے طور پر گواہی دینا ایک ایسا امر ہے جسے پوری طرح سے سچائی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے، اس میں کسی بھی قسم کی کوئی تحریف وبدلاؤ نہیں ہونا چاہیے اور وہ محض اللہ کے خوشنودی کے لیے ہو، جیسا کہ اللہ تعالی نے ہمیں حکم دیا ہے: وَ اَقِیۡمُوا الشَّہَادَۃَ  لِلّٰہِ (سورہ طلاق: 2) (ترجمہ: اور اللہ کے لیے گواہی قائم کرو۔ کنز الایمان) یعنی  سچائی اور عدل وانصاف کے ساتھ گواہی دو جس میں کسی بھی قسم کی کوئی تبدیلی ورد بدل نہ ہو، نہ اس میں زیادتی ہو اور نہ ہی کمی۔

اسی لیے پورے طور سے گواہی وہی شخص دے سکتا ہے جو  فنون قول میں مہارت حاصل ہو، تجربہ کار ہو حالات اور ان کی تبدیلی سے واقفیت رکھتا ہو، اور ان کے علاوہ جیسے ثابت قدمی، سچائی کا سامنے کرنے اور بنا کسی خوف کے حق کو ثابت کرنے اور باطل کو رد کرنے والی جیسی صفات اس کے اندر موجود ہوں۔

 

 

 

 

 

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day