1. مضامين
  2. رسول اللہ ﷺ کا غير مسلموں کی ساتھ سلوک
  3. ان کی اذیتوں وتکلیفوں پر صبر کرنا

ان کی اذیتوں وتکلیفوں پر صبر کرنا

595 2021/02/03 2024/03/28

آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے نسب وپڑوس کے اعتبار سے قریب ترین لوگوں یعنی اپنے چچا ابو لہب اور اس کی بیوی کی اذیتوں وتکلیفوں پر صبر کرتے تھے، چنانچہ جب ایام حج میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بازاروں ومجالس وغیرہ میں لوگوں کے پاس جاتے اور انہیں اسلام کی دعوت دیتے تھے تو آپ کا چچا ابو لہب آپ کے پیچھے پیچھے گھومتا اور آپ کی تکذیب کرتا تاکہ لوگوں کو اسلام سے روک سکے، اور اس کی بیوی کانٹے اور سامان اذیت جمع کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے راستے پر رکھ دیتی تھی۔

لیکن ہاں کبھی کبھی کافر کی طرف سے ہونے والی اذیت وتکلیف کا بنا زیادتی کے ایسی چیز سے جواب دینا ضروری ہوتا ہے جس سے وہ تکلیف دینے سے رک جائے جیسا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر دعا کرکے کیا جنہوں نے آپ کی پیٹھ پر اوجھڑی وگندی پھینکی تھی، لیکن نہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرح کسی برے فعل کے ذریعہ زیادتی کی اور نہ ہی ان سے کوئی فحش کلامی کی، اور ان پر دعا کرنا ایک موثر ذریعہ تھا جس کے انجام کو وہ اچھی طرح جانتے تھے، اور اس کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ آپ کی دعا سنتے ہی انہوں نے فوراً ہنسنا چھوڑ دیا ہے، اور ان میں سے کوئی بھی یہ نہ بولا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر دعا کرکے غلط کیا۔

امام بخاری نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ایک حدیث بیان کی کہ جس میں وہ فرماتی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا:“کیا آپ پر کوئی دن احد کے دن سے بھی زیادہ سخت گزرا ہے؟” آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر فرمایا: “تمہاری قوم ( قریش ) کی طرف سے میں نے کتنی مصیبتیں اٹھائی ہیں لیکن اس سارے دور میں عقبہ کا دن مجھ پر سب سے زیادہ سخت تھا یہ وہ موقع تھا جب میں نے (طائف کے سردار) کنانہ ابن عبد یالیل بن عبد کلال کے ہاں اپنے آپ کو پیش کیا تھا، لیکن اس نے (اسلام کو قبول نہیں کیا اور) میری دعوت کو رد کر دیا، میں وہاں سے انتہائی رنجیدہ ہو کر واپس ہوا، پھر جب میں قرن الثعالب (طائف کے راستے پر ایک جگہ کا نام ہے) پہنچا تب مجھ کو کچھ ہوش آیا، میں نے اپنا سر اٹھایا تو کیا دیکھتا ہوں کہ بدلی کا ایک ٹکڑا میرے اوپر سایہ کئے ہوئے ہے اور میں نے دیکھا کہ حضرت جبرئیل علیہ السلام اس میں موجود ہیں، انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالی نے  آپ کے بارے میں آپ کی قوم کی باتیں اور ان کے جوابات سنے ہیں، آپ کے پاس اللہ تعالی نے پہاڑوں کا فرشتہ بھیجا ہے، آپ ان کے بارے میں جو چاہیں اس کا اسے حکم دے دیں، اس کے بعد مجھے پہاڑوں کے فرشتے نے آواز دی، اس نے مجھے سلام کیا اور کہا کہ اے محمد! پھر انہں نے بھی وہی بات کہی، آپ جو چاہیں ( اس کا مجھے حکم فرمائیں ) اگر آپ چاہیں تو میں دونوں طرف کے پہاڑ ان پر لا کر ملا دوں (جن سے وہ چکنا چور ہوجائیں)؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو صرف اکیلے اللہ ہی کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی”۔ ( صحیح بخاری 83/4)

چنانچہ اس مذکورہ حدیث پاک میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی پیاری زوجہ طیبہ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنی قوم سے جو اذیتیں وتکلیفیں پہونچیں وہ ان اذیتوں وتکلیفوں زیادہ سخت تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ احد کے دوران پہونچیں، وہ جنگ احد کہ جس میں ایک بد بخت کافر نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک پتھر ایسا پھینک کر مارا کہ جس سے آپ کے کچھ دندان مبارک شہید ہو گئے، آپ چہرہ اقدس زخمی ہو گیا اور آپ کی خود ٹوٹ کر اس کی کڑیاں آپ کے چہرۂ مبارک میں اس طرح گڑھ گئیں کہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ کے انہیں نکالنے میں سامنے کے دانت ٹوٹ گئے اور بڑی مشکل سے انہیں نکال پائے، لیکن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور  خون سے آلود تھا اور خون تھم نہ رہا تھا یہاں تک کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ نے جب دیکھا کہ خون بند ہونے کے بجائے بڑھتا جارہا ہے تو آپ رضی اللہ عنہا نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا، اور جب وہ جل کر راکھ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں پر اسے چپکایا تب جا کر وہ خون بند ہوا، لیکن اس سب کے باوجود بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرما رہے ہیں کہ بروز عقبہ جو آپ کو اذیت وتکلیف پہونچی وہ ان سے بھی زیادہ سخت تھی!!!

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تفصیلاً تو بیان نہیں فرمایا کہ آپ کو اس دن کیا اذیتیں وتکلیفیں پہونچیں لیکن ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن کی اپنی حالت ضرور بیان فرمائی، وہ یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے بہت کبیدہ خاطر، دل شکستہ اور رنجیدہ ہو کر نکلے یہاں تک کہ آپ حزن وغم کی وجہ سے اپنے آپ کو بھول گئے اور قرن الثعالب میں پہونچ کر آپ بحال ہوئے، اس حالت سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس وقت کتنی اذیت وتکلیف ہوئی ہوگی؟؟؟ !!! اور کتنا بڑا گناہ وجرم اس قوم نے آپ کے ساتھ کیا ہوگا کہ اللہ تبارک وتعالی نے حضرت جبریل کے ساتھ پہاڑوں کے فرشتے کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا تاکہ وہ مکہ کے پہاڑوں میں سے دو پہاڑوں کو ان پر ملا کر انہیں دھسا دے۔؟؟!!! اور کس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبر وتحمل کے مالک اور رحیم وکریم تھے کہ آپ اس وقت بھی یہ ارشاد فرما رہے ہیں کہ:“مجھے تو اس کی امید ہے کہ اللہ تعالی ان کی نسل سے ایسی اولاد پیدا کرے گا جو صرف اکیلے اللہ ہی کی عبادت کرے گی، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائے گی۔”؟؟؟!!!

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day