Search
غیر مسلموں کے کھانے کھانا اور ان کے مشروبات پینا
یاد رکھیں کہ کھانے کی مطلقاً مندرجہ ذیل اقسام ہیں:
(1) درختوں وپودوں پر اترنے والا کھانا: جیسے کہ سبزیاں، پھل وغیرہ اور جو کچھ بھی ان سے بنایا جاتا ہو جیسے کہ مربہ، اچار اور سرکہ وغیرہ۔ (چنانچہ یہ چیزیں تو بنا کسی قید وشرط کی کھائی جا سکتی ہیں)
(2) گوشت کا کھانا: حلال بری چوپایوں ومویشیوں کا ہو یا بحری جانوروں کا ہو جیسے کہ مچھلی یا گھریلو پالتو پرندوں کا (جیسی مرغی وغیرہ)، چنانچہ مسلمان کو مویشیوں اور پرندوں کا گوشت کھانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انہیں اسلامی طریقہ سے ذبح کیا گیا ہو اور ذبح کرتے وقت اس پر اللہ کا نام لیا گیا ہو، (ورنہ اگر اسلامی طریقہ سے ذبح نہ کیا گیا ہو بلکہ ایسی ہی اسے گلا گھونٹ کر مار دیا گیا ہو یا مردار جانور ہو یا غیر اللہ کے لیے ذبح کیا گیا ہو یا کافر یا مرتد نے ذبح کیا ہو تو اس جانور کا گوشت حرام ہے لہذا مسلمان کو اس کا گوشت کھانا جائز نہیں ہے۔)
چنانچہ اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: (﴿حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ وَلَحْمُ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ وَالْمُنْخَنِقَةُ وَالْمَوْقُوذَةُ وَالْمُتَرَدِّيَةُ وَالنَّطِيحَةُ وَمَا أَكَلَ السَّبُعُ إِلَّا مَا ذَكَّيْتُمْ وَمَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَأَن تَسْتَقْسِمُوا بِالْأَزْلَامِ ۚ ذَٰلِكُمْ فِسْقٌ﴾ (سورہ ٔمائده:3) ترجمہ: تم پر حرام کیے گیا مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام لیا گیا اور جو گلا گھونٹنے سے مرے اور جو بےدھار کی چیز سے مارا ہوا اور جو (بلندی سے) گر کر مرا اور جسے کسی جانور نے سینگ مارا اور جسے کوئی درندہ کھا گیا، مگر جنہیں تم ذبح کرلو، اور(حرام کیا گیا) جو (بتوں کے تقرب کے لیے گڑھے)کسی تھان پر ذبح کیا گیا اور پانسے ڈال کر بانٹا کرنا یہ گناہ کا کام ہے،نیز فرماتا ہے) ﴿ وَلَا تَأْكُلُوا مِمَّا لَمْ يُذْكَرِ اسْمُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَإِنَّهُ لَفِسْقٌ ۗ وَإِنَّ الشَّيَاطِينَ لَيُوحُونَ إِلَىٰ أَوْلِيَائِهِمْ لِيُجَادِلُوكُمْ ۖ وَإِنْ أَطَعْتُمُوهُمْ إِنَّكُمْ لَمُشْرِكُونَ﴾ (سورہ انعام:131)
ترجمہ: اور اس ذبیحہ کو نہ کھاؤ جس پر اللہ کا نام نہ لیا گیا، اور وہ بے شک گناہ ہے، اور بے شک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑیں اور اگر تم ان کا کہنا مانو تو اس وقت تم مشرک ہو۔
لہذا مذکورہ آیت سے پتہ چلتا ہے غیر مسلم کا ذبیحہ کھانا حلال نہیں ہے، لیکن اس حکم سے اہل کتاب یعنی یہود و نصاری مستثنی ہیں کہ ان کا ذبیحہ کھانا مسلمان کے لیے حلال ہے جبکہ انہوں نے جانور کو اہل اسلام کے طریقہ سے ذبح کیا ہو (اور ذبح کرتے وقت اللہ عزوجل کا نام لیا ہو نہ کہ حضرت مسیح علیہ الصلوۃ والسلام کا نام لیا ہو،) چنانچہ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿الْيَوْمَ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۖ وَطَعَامُ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ ۖ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ مُحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ وَلَا مُتَّخِذِي أَخْدَانٍ ۗ وَمَن يَكْفُرْ بِالْإِيمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾(سورہ ٔمائده:5)
ترجمہ: آج تمہارے لئے حلال ہوئیں پاک چیزیں ، اور کتابیوں کا کھانا تمہارے لیے حلال ہوا، اور تمہارا کھانا ان کے لئے حلال ہے، اور پاک دامن مسلمان عورتیں اور تم سے پہلے جن کو کتاب ملی ان کی پاک دامن عورتیں ، جب تم انہیں ان کے مہر دو قید میں لاتے ہوئے نہ مستی نکالتے اور نہ نا آشنا بناتے، اور جو مسلمان سے کافر ہو اس کا کیا دھرا سب اکارت گیا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہے۔
لیکن جسے اس بات کا یقین ہو اسے اسلامی طریقے کے مطابق ذبح نہیں کیا گیا تھا تو اسے اس کا کھانا جائز نہیں ہے۔
امام بخاری “بَابُ مَا ذُبِحَ عَلَى النُّصُبِ وَالأَصْنَامِ (ان جانوروں کا بیان جن کو تھانوں اور بتوں کے نام پر ذبح کیا گیا)” میں روایت کرتے ہیں کہ موسی بن عقبہ نے بتایا کہ مجھے سالم نے خبر دی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زید بن عمرو بن نوفل سے مقام بلدح کے نشیبی حصہ میں ملاقات ہوئی- یہ آپ پر وحی نازل ہونے سے پہلے کا زمانہ ہے۔، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے (ضیافت کے لیے) ایک دستر خوان پیش کیا گیا جس میں گوشت تھا (مگر جانور کو ذبح کے وقت بتوں کا نام لیا گیا تھا)، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کھانے سے منع فرما دیا اور ارشاد فرمایا: “تم جو جانور اپنے بتوں کے نام پر ذبح کرتے ہو میں انہیں کھاتا، میں صرف اسی جانور کا گوشت کھاتا ہوں جس پر ( ذبح کرتے وقت ) اللہ کا نام لیا گیا ہو”۔ (225/6)
مسلمان کو اہل کتاب کے ذبیحہ کے طریقے کا علم ہونے اور نہ ہونے کے اعتبار سے تین صورتیں ہیں:
پہلی: مسلمان کو یہ یقین ہو کہ اسے اسلامی طریقے کے علاوہ کسی اور طریقے سے ذبح کیا گیا ہے، یا اسے اس کا غالب گمان ہو، تو ایسی صورت میں اس کے لئے یہ کھانا جائز نہیں ہے۔
دوسری: اسے اس بات کا یقین ہو کہ اسے اسلامی طریقے سے ذبح کیا گیا ہے، یا اس کا غالب گمان ہو تو ایسی صورت میں اس کا کھانا جائز ہے۔
تیسری: اس کو دونوں صورتوں کا شک وشبہ ہو، اور کوئی بھی پہلو راجح نہ ہو تو ایسی صورت میں وہ اسے کھا سکتا ہے کیوں کہ وہی (حلت) اصل ہے لیکن بچنے میں احتیاط وتقوی ہے۔
(3) مشروبات: دودھ، جوس وغیرہ دیگر پینی والی چیزیں جبکہ وہ ناپاک نہ ہوں، یا ان کا مادہ غیر معلوم نہ ہو یا وہ حرام چیزوں سے نہ بنی ہوں، لہذا جس چیز کی اصل ہماری شریعت میں جائز ہو تو اس کا غیر مسلموں سے لے کر پینا جائز ہے، اور جو ہماری شریعت میں حرام ہے جیسے شراب تو اس کا پینا حرام ہے بھلے ہی وہ کسی بھی چیز سے بنی ہوئی ہو جب تک کہ اس میں علت حرمت پائی جاتی ہو اور وہ علت ہے عقل زائل کرنا، چنانچہ امام بخاری حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ممبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا: “امابعد! شراب کی حرمت کا حکم نازل ہو چکا ہے، تو وہ پانچ چیزوں سے بنتی تھی: انگور، کھجور، شہد، گیہوں اور جو، اور شراب (خمر) وہ ہے جو عقل کو زائل کر دے”۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے “بتع” - شہد کی شراب جو کہ اہل یمن پیتے تھے- کے بارے میں پوچھا گیا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”جو بھی پینے والی چیز نشہ لاوے وہ حرام ہے”۔ (71/7)
اسی طرح اگر کسی بھی مشروب (پینے والی چیز) کے متعلق یہ ثابت ہو جائے کہ وہ مشروب کسی حرام چیز جیسے کہ مردہ جانوروں یا خنزیروں یا کتوں وغیرہ کے گوشت یا ان کی چربی وغیرہ سے تیار کیا گیا ہے یا کسی اور حرام چیز سے بنایا گیا ہے تو اس مشروب کا پینا حرام ہے، اور ضروری ہے کہ نو پید چیزوں کی حلت وحرمت کے احکامات کو انفرادی اجتہادات پر نہ چھوڑا جائے، بلکہ حاکموں یا مفتیان کرام کو چاہیے کہ وہ ان کے تعلق سے قطعی حکم شرع بیان کرکے عوام کی رہنمائی کریں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی حدىث پاک سے پتہ چلتا ہے کہ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بتع کے بارے میں دریافت کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی اس کی حرمت اور ساتھ ہی میں اس کی علت کو بیان فرما کر ان کی رہنمائی فرمائی۔