Search
غیر مسلموں کے مردوں کے تعلق سے ان کے حقوق
اگر کوئی غیر مسلم فوت ہو جائے تو اس کے اہل خانہ یا رشتہ داروں کو تعزیت دینا جائز ہے، تعزیت کے معنی ہیں کہ صاحب مصیبت کو مصیبت برداشت کرنے پر تقویت دینا، (اور اسے صبر کرنے کو کہنا)، لہذا مسلمان غیر مسلم کے فوت ہونے پر اس گھر والوں یا رشتہ داروں کو تعزیت دیتے وقت مثلاً یہ کہے کہ: اللہ تمہیں اس سے بہتر عطا کرے، اللہ تمہاری حالت درست کرے، اور انہیں جیسے کلمات کہے، نہ یہ کہ ان کے لیے اجر وثواب کہ دعا کرے اور میت کے لیے رحمت مغفرت اور بخشش کی دعا کرے؛ کیونکہ وہ اجر وثواب اور رحمت ومغفرت کے اہل ہی نہیں ہیں۔
اور یاد رہے کہ اس سب سے غیر مسلم کو اسلام کی طرف مائل کرنا مقصود ہو۔
اسی طرح عبرت ونصیحت کی غرض سے مسلمان غیر مسلم کی قبر پر بھی جا سکتا ہے، لیکن وہاں جا کر نہ اسے سلام کرے اور نہ ہی اس کے لیے مغفرت وبخشش کی دعا کرے، چنانچہ امام مسلم حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد:“میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لیے استغفار کرنے کے اجازت چاہی تو اس نے مجھے اجازت نہیں دی، اور میں نے اس سے ان کی قبر پر جانے کی اجازت مانگی تو اس نے مجھے اجازت دے دی”۔ (65/3)
( ہم پیچھے عرض کر چکے ہیں کہ مذکورہ حدیث پاک میں استغفار کی ممانعت سے اس بات پر استدلال کرنا ہر گز صحیح نہ ہوگا کہ معاذ اللہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ مشرکہ تھیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ محترمہ ملت ابراہیمی پر مومنہ موحدہ تھیں جیسا کہ امام ابن حجر عسقلانی اور امام سیوطی اور دیگر علمائے کرام عليهم الرحمة والرضوان نے تحقیق کی ہے، چنانچہ حدیث پاک میں وارد ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمیشہ اللہ عزوجل مجھے کرم والی پشتوں اور پاک وطہارت والے شکموں میں منتقل فرماتا رہا یہاں کہ مجھے میرے ماں باپ سے پیدا کیا۔"اور ایک دوسری روایت میں ہے: “میں ہمیشہ پاک مردوں کی پشتوں سے پاک عورتوں کی پشتوں میں منتقل ہوتا رہا۔” اور مشرکوں کے بارے میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: ﴿إِنَّمَا الْمُشْرِكُونَ نَجَسٌ ﴾یعنی مشرک تو نرے ناپاک ہی ہیں۔ تو ضروری ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام آباؤ واجداد کرام وامہات وجدات طاہرات سب اہل ایمان وتوحید ہوں، اور کوئی بھی مشرک نہ ہو، کیونکہ مشرک پاک نہیں بلکہ ناپاک ونجس ہے جیسا کہ قرآن پاک سے ثابت، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پاک پشتوں وشکموں سے منتقل ہوتے ہوئے پاک پشت وپاک شکم سے پیدا ہوئے، لہذا آپ کی والدہ ماجدہ سیدہ آمنہ اور آپ کے والد ماجد عبد اللہ دونوں ہی اہل ایمان اور جنتی ہیں۔ اس مسئلہ کی مزید وضاحت کے لیے اعلی حضرت علیہ الرحمہ کے رسالے “شمول الإسلام لأصول الرسول الكرام” وامام جلال الدین سیوطی علیہ الرحمہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والدین کی نجات کے بارے رسائل کا مطالعہ فرمائیں کہ آپ نے اس مسئلہ میں چھ رسالے تصنیف فرمائے ہیں، انہیں میں سے ایک رسالہ ہے: “التعظيم والمنة فى ان ابوى الرسول فى الجنة”۔ مترجم)
نیز مسلمان کے لیے غیر مسلم کو غسل دینا اور کفن دینا بھی جائز نہیں ہے؛ کیونکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں قتل ہونے والے مشرکین کو اسی طرح بنا غسل وتکفین کے مٹی میں دبا دیا تھا۔
اور نہ ہی اس کی نماز جنازہ پڑھنا جائز ہے، کیونکہ اللہ رب العزت اپنی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ارشاد فرماتا ہے:
﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَىٰ قَبْرِهِ ۖ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ ﴾(سورہ توبہ، 84)
ترجمہ: اور جو ان میں سے مرے کبھی بھی اس پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا، بے شک وہ اللہ اور اس کے رسول کے منکر ہوئے اور فسق ہی میں مر گئے۔
چنانچہ اس آیت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو (منافق و) کافر کی نماز جنازہ پڑھنے سے منع کیا گیا، جبکہ نماز جنازہ میت کے حق میں ایک اہم کام ہے اور اس کے لیے سب سے زیادہ نفع بخش چیز ہے۔
اسی طرح مسلمان کو مسلمان کی طرح غیر مسلم کی تجہیز وتکفین کی ذمہ داری لینا بھی جائز نہیں ہے، اگر غیر مسلم کا کوئی قریبی نہ ہو جو اس کی تجہیز وتکفین کرے تو مسلمان کے لیے جائز ہے کہ وہ اس کی نعش کو مٹی میں دبا دے تاکہ دوسرے لوگوں کو اس کی بد بو سے اذیت نہ پہنچے، اسی طرح مسلمان کو غیر مسلم کے جنازہ کے ساتھ ساتھ چلنا، یا اسے کاندھا دینا یا اس کے دفن میں شریک ہونا بھی جائز نہیں ہے۔
اگر مسلمان کے سامنے سے غیر مسلم کا جنازہ گزرے تو وہ کیا کرے؟
امام بخاری اپنی صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا کہ ہمارے پاس سے ایک جنازہ گزرا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہو گئے تو ہم بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے کھڑے ہو گئے، پھر ہم نے عرض کیا: “اے اللہ کے رسول! یہ تو ایک یہودی کا جنازہ ہے؟ (تو آپ کیوں کھڑے ہو گئے؟)" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم لوگ جنازہ دیکھو تو کھڑے ہو جایا کرو”۔
اسی طرح امام بخاری ایک اور حدیث پاک حضرت عبد الرحمن بن ابی لیلی سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں کہا: "سہل بن حنیف اور قیس بن سعد رضی اللہ عنہما قادسیہ میں کسی جگہ بیٹھے ہوئے تھے، اتنے میں کچھ لوگ ادھر سے ایک جنازہ لے کر گزرے تو یہ دونوں بزرگ کھڑے ہوگئے، ان سے کہا گیا کہ یہ جنازہ تو یہیں کے باشندوں - یعنی ذمیوں- کا ہے (جو کافر ہیں) اس پر انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اسی طرح سے ایک جنازہ گزرا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے کھڑے ہوگئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا گیا کہ یہ تو یہودی کا جنازہ تھا؟ آپ نے فرمایا: “کیا یہودی جان نہیں ہے؟”۔