Search
غیر مسلموں کے ساتھ مسلمان کا کام کرنا
شیخ ماجد کہتے ہیں: مسلمان کا غیر مسلم ملک میں سرکاری ملازمتوں میں ملازمت کرنا، مناصب وعہدوں پر فائز ہونا اور پارلیمنٹ میں جانا تین شروط کے ساتھ جائز ہے:
(1) پہلی شرط یہ ہے کہ وہ کام جائز ہو، کیونکہ مسلم ملک میں ناجائز کام کرنا جائز نہیں ہے تو بھلا غیر مسلم ملک میں کیسے جائز ہو سکتا ہے؟جیسے کہ شراب کی فیکٹری، یا سود پر مبنی بینک یا جوئے کے ہوٹل وغیرہ میں کام کرنا۔ (چنانچہ ایسا کام نہ تو مسلم ملک میں جائز اور نہ ہی غیر مسلم ملک میں۔)
(2) اس کام کو کرنے سے مسلمانوں یا اسلام کو کوئی نقصان نہ پہنچے، کیونکہ غیر مسلم کے یہاں کام کرنا تب جائز ہے جبکہ اسے کوئی مذہبی نقصان نہ پہنچے جیسے کہ اسے وقت پر نماز پڑھنے یا رمضان کے روزے رکھنے سے روکا جائے، اور نہ مسلمانوں کو کوئی نقصان پہنچے جیسے کہ افرادی یا حکومتی سطح پر مسلمانوں کے خلاف جاسوسی حلقوں میں جاسوسی کرنا یا اسلحہ تیار کرنا، ہاں جسے اپنے آپ پر بھروسہ ہو پھر وہ ایسا کام کرے تاکہ اس سے تجربہ حاصل کرکے پھر مسلمانوں کے نفع کے لیے کام کرنا چاہے تو اس کے لیے یہ جائز ہے، اسی طرح اسلامی ویب سائٹوں پر الیکٹرانک حملے یا مسلمانوں کے خلاف جنگ میں میں کام کرنا بھی جائز نہیں ہے، ہاں اگر ایسا کرنے میں اسلام یا مسلمانوں کا فائدہ ہو ہو یا ان پر سے ضرر ونقصان دور ہو تو ایسے کام کا جائز ہونا بہتر ہے جیسے وزیر مذہب یا امیگریشن یا میونسپل کونسلوں کے ممبر کی حیثیت سے کام کرنا، کیونکہ وہ اپنے اس منصب سے مسلمانوں کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
(3) اس کام پر مذہب اسلام کے خلاف امور کی پابندی کرنا مرتب نہ ہو چاہے وہ عقائد سے متعلق ہو جیسے غیر مسلموں کے مذہبی تہواروں کے جشنوں وتقریبوں میں شریک ہونا یا عبادت سے متعلق ہو جیسے کہ مذہبی رواداری کے دعوے کی بنیاد پر مساجد میں نماز نہ پڑھنا، یا معاملات سے متعلق ہو جیسے کہ مالی معاملات میں سود کا اقرار کرنا یا سلوک اور اخلاقیات سے متعلق ہو جیسے مسلمان عورت پر کام کے دوران حجاب نہ پہننے پر پابندی عائد کرنا۔ (شیخ ابن ماجد، احكام التعامل مع غير المسلمين)