1. مضامين
  2. رسول اللہ ﷺ کا غير مسلموں کی ساتھ سلوک
  3. اجتماعی طور پر غیر مسلموں کے ساتھ اختلاط

اجتماعی طور پر غیر مسلموں کے ساتھ اختلاط

670 2021/02/04 2024/11/14

اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر کوئی مسلمان غیر مسلم ملک میں رہتا ہو یا مسلم ملک میں رہتا ہو اور گھر یا دوران کام میں اس کا پڑوسی کوئی غیر مسلم ہو تو لازمی طور پر اس کے ساتھ معاملات کرنے اور ملنے جلنے کی اسے ضرورت پڑے گی، لہذا ضروری ہے کہ اس تعلق سے بھی حدود واحکام شرع کو جانا جائے۔

(1) پڑوس کا حق: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:

﴿وَاعْبُدُوا اللَّهَ وَلَا تُشْرِكُوا بِهِ شَيْئًا ۖ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَبِذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنبِ وَابْنِ السَّبِيلِ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ مَن كَانَ مُخْتَالًا فَخُورًا ﴾(سورہ نساء: 36)

ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ ٹھہراؤ، اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور پاس کے پڑوسیوں اور دور کے پڑوسیوں اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور اپنی باندی غلام کے ساتھ (بھلائی کرو) بے اللہ کو خوش نہیں آتا کوئی اترانے والے بڑائی مارنے والا۔

تفسیر ابن کثیر میں ہے:“﴿وَالْجَارِ ذِي الْقُرْبَىٰ ﴾(پاس کا یا رشتہ دار پڑوسی) سے مراد ہے: مسلمان پڑوسی، اور  ﴿وَالْجَارِ الْجُنُبِ﴾ (دور کا یا اجنبی پڑوسی) سے مراد ہے: یہودی اور نصرانی”۔

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں: رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:“پڑوسی تین قسم کے ہوتے ہیں: ایک وہ پڑوسی جس کا ایک ہی حق ہوتا، اس کا پڑوسیوں میں سب سے کم حق ہے، اور ایک وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں اور ایک وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں اور اس کا پڑوسیوں میں سب سے زیادہ حق ہوتا ہے، پس وہ پڑوسی جس کا ایک حق ہوتا ہے وہ مشرک پڑوسی ہے جو رشتہ دار نہ ہو، پس اس  کا ایک پڑوس کا حق ہے، اور وہ پڑوسی جس کے دو حق ہوتے ہیں وہ مسلمان پڑوسی ہے، پس اس کا ایک حق مسلمان ہونے کا ہے اور دوسرا حق پڑوسی ہونے کا، اور رہا وہ پڑوسی جس کے تین حق ہوتے ہیں تو وہ رشتہ دار مسلمان پڑوسی ہے، پس اس کا ایک حق پڑوسی ہونے کا ہے، اور ایک حق مسلمان ہونے کا اور ایک حق رشتہ داری کا”۔

اور“جار” یعنی پڑوسی کا لفظ ہر اس شخص پر بولا جاتا ہے جو گھر کا پڑوسی ہو، یا کام کا پڑوسی ہو یا سفر وغیرہ کا پڑوسی ہو، یعنی  پڑوسی لفظ ہر اعتبار سے پڑوس میں رہنے والے کے لیے بولا جاتا ہے۔

غیر مسلم کے پڑوسی ہونے کے اعتبار سے چند حقوق ہیں، ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں: اسے تحفے تحائف پیش کرنا، اور اس کے لیے سب سے بڑا ہدیہ یہ ہے کہ تم اسے دن حق اسلام کی دعوت دو کہ اس سے اسلام کی خوبیاں اور محاسن بیان کریں اور اپنے قول وفعل اور سلوک کے ذریعہ اسے اسلام کی ترغیب دلائیں، اور جہالت کی تاریکیوں سے نکالیں، جہاں تک ہو سکے اس کے ساتھ اچھے سے اچھا سلوک کریں، جان، مال، عزت وآبرو یا کسی بھی اعتبار سے اس پر ظلم نہ کریں، ضرورت کے وقت اس کی مدد کریں، اسے تکلیف نہ دیں اور اس کی اذیت پر صبر وتحمل سے کام لیں جب تک اس میں آپ کی ذلت ورسوائی نہ ہو۔

جو اجنبی غیر مسلموں کے ساتھ رہے تو کیا اسے ان کی زبان جاننا بھی ضروری ہے، اس بارے میں شریعت کیا حکم دیتی ہے؟

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی دوسری زبان نہ سیکھی، لیکن ہاں آپ سے یہ ثابت ہے کہ آپ نے اپنی مادری زبان کے علاوہ دوسری زبانوں کے بعض کلمات بولے ہیں، انہیں میں سے وہ بھی ہیں جنہیں امام بخاری نے روایت کیا ہے، چنانچہ امام بخاری کہتے ہیں: ہم سے ابو الولید نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم سے اسحاق بن سعید بن عمرو بن سعید بن عاص نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ام خالد بنت خالد رضی اللہ عنہا نے بیان کیا، انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ کپڑے آئے جن میں ایک کالی چادر بھی تھی، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “تمہاراکیا خیال ہے، کسے یہ چادر دی جائے۔” صحابہ کرام رضی اللہ عنہم خاموش رہے، پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “ام خالد رضی اللہ عنہ کو بلا کر لاؤ۔” چنانچہ مجھے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا، تو مجھے وہ چادر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے پہنائی، (وہ اس وقت بہت چھوٹی تھیں کہ ایک دوسری روایت میں ہے کہ انہیں اٹھاکر کر لایا گیا) اور فرمایا: “ دیر تک جیتی رہو دو مرتبہ آپ نے فرمایا، پھر آپ اس چادر کے نقش ونگار کو دیکھنے لگے اور اپنے ہاتھ سے میری طرف اشارہ کر کے فرمایا:“ ام خالد ! “ سناہ ، سناہ ”۔” یہ حبشی زبان کا لفظ ہے یعنی واہ کیا زیب دیتی ہے۔

چنانچہ مذکورہ حدیث پاک سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی گفتگو کے دوران مخاطب کو خوش کرنے کے لئے کبھی کبھار عربی زبان کے علاوہ بھی بعض کلمات استعمال کر لیتے تھے، لیکن ایسا زیادہ کرنا ثابت نہیں ہے، لہذا مذکورہ روایت اور دیگر روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اپنی زبان (عربی) کے علاوہ دوسری زبان بھی استعمال کرسکتے ہیں، لیکن انسان کو اس کی عادت نہیں بنا لینی چاہیے، اور ہاں مسلمانوں کے لیے ہرگز یہ مناسب نہیں ہے کہ وہ قرآن کی زبانی (عربی زبان) پر کسی دوسری زبان کو فوقیت دیں، اور یہ بھی دین کی نصرت وحمایت ہی ہے کہ وہ غیر مسلموں کے ساتھ معاملات، کام کاج، اور مجالس وغیرہ میں عربی زبان کو ہی رسمی زبان رکھیں، لیکن اگر ان سے معاملات میں دوسری زبان کی حاجت ہو تو بھی کوئی بات نہیں ہے۔

اسلام نے پڑوس کے اعتبار سے غیر مسلموں کو جو اعزاز سے نوازا ہے اس کے مقابل میں کس قدر انہوں مسلمانوں کے پڑوس کے حقوق کی رعایت کی؟

یہ واقعہ  بنی قینقاع کی بازار کا ہے کہ جب ایک مسلمان عورت وہاں اپنے زیورات بیچنے کے لیے گئی، تو کچھ یہودی اس کے گرد جمع ہو گئے اور اس کا چہرہ دیکھنا چاہا، لیکن اس عورت نے ایسا کرنے سے منع کر دیا، تو سنار نے موقع پاکر اس عورت کے کپڑے کا ایک حصہ اٹھا دیا اور اس عورت کو یہ پتہ نہ چلا، پس جب وہ کھڑی ہوئی تو اس کا ستر کھل گیا، اس پر یہودی ہنس پڑے، اتنے میں ایک مسلمان شخص نے آکر  اس سنار کو قتل کر دیا، پھر ان یہودیوں نے اس مسلمان کو قتل کر دیا، پس یہ ان کے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے درمیان جنگ کی چنگاری تھی جو انہوں نے خود ہی لگائی تھی۔

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day