Search
سوم: ایک ایسی حقیقت جس سے کچھ لوگ نا واقف ہیں
غیر مسلموں کے ساتھ جہاد کے حکم کی حقیقت سے کچھ لوگ ناواقف ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جو اسے قرآن و سنت کی روشنی میں سمجھے بغیر اپنی عقول و خواہشات کے مطابق سمجھتے ہوئے اس پر عمل کرتے ہیں، پس جو بھی وہ غیر مسلم دیکھتے ہیں اسے قتل کر دیتے ہیں، بلکہ جس مسلمان کے حوالے سے بھی شیطان انہیں وسوسہ دلادے کہ وہ غیر مسلموں کے قریب رہتا ہے اسے بھی قتل کر دیتے ہیں اور کلمہ طیبہ پڑھنے کو بھی فوراً کافر بنا دیتے ہیں، پس یہی وہ لوگ ہیں جو اپنی خواہشات کی مطابق بے گناہوں کا خون بہا رہے ہیں اور دشمنان اسلام کو اسلام کے خلاف اکسا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ آج اسے بدنام کر رہے ہیں کہ اسلام دہشت گردی کا دین ہے۔
یاد رہے کہ جہاد اور غیر مسلموں کے ساتھ معاملات سے متعلق سبھی احکام کے حوالے سے قرآن پاک میں بہت سی آیات موجود ہیں، جن میں اکثر سورہ انفال، سورہ توبہ، اور سورہ ممتحنہ میں ہیں، اور پورے قرآن پر ایمان لانا ضروری ہے، پس جو اس کی کچھ آیتوں پر ایمان لائے اور صرف انہیں پر عمل کرے اور دوسری آیتوں کو چھوڑ دے تو نہ تو اس کا قرآن کے مطابق عمل ہے اور نہ ہی اس پر اس کا ایمان ہے۔
پس سورہ انفال مندرجہ ذیل امور پر مشتمل ہے:
اس میں غزوہ بدر اور اس کے واقعات کو بیان کیا گیا ہے جن میں مسلمانوں کے لیے بہت سی نصیحتیں و عبرتیں موجود ہیں تاکہ اگلے غزوات میں وہ ان کے لیے راہ ہدایت ہو، ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
(1) فتح ونصرت کی بنیاد اللہ کی توفیق اور اس کے فضل وکرم پر ہے نہ کہ ہماری طاقت وقوت پر۔
(2) دوران جنگ ہمیں اللہ عزوجل کی بارگاہ میں گڑ گڑانا چاہیے تاکہ ہمیں اس کی نصرت و تائید حاصل ہو سکے۔
(3) جنگ بلکہ ہر کام خالص اللہ عزوجل کے لیے ہونا چاہیے نہ کہ کسی دنیوی مقصد کی وجہ سے۔
(4) مال غنیمت تقسیم کرنا اللہ کی طرف سے شرعی حکم ہے، اس میں کسی انسان کا کوئی دخل نہیں ہے، نیز اسے تقسیم کرتے وقت ان مسلمانوں میں جو مدینہ میں ہی موجود تھے، اور ان میں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ میں شریک تھے اور ان کے علاوہ لوگوں کے درمیان امتیاز برتا گیا۔
(5) اسلامی جہاد کے اصول وضوابط سکھائے گئے ہیں جو اسے بقیہ مذہبی وملتی جنگوں سے ممتاز کرتے ہیں۔
(6) جہاد کا بنیادی مقصد سکھایا گیا ہے اور وہ ہے عزت اسلام کا اظہار اور اعلائے کلمہ حق نہ کہ غیر مسلموں کو مارنا۔
(7) نیز انہیں یہ بھی سکھایا گیا ہے کہ قیدیوں کے ساتھ کیسا سلوک کریں۔
(8) قیدیوں سے خطاب کیا گیا ہے کہ اگر وہ اللہ (اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ اچھا معاملہ کریں اور اسلام میں داخل ہو جائیں تو اللہ انہیں اس سے بہتر بدلہ عطا فرمائے گا جو وہ جنگ کی وجہ سے کھو چکے ہیں۔
(9) بعض ایسے اسلامی اخلاق وآداب کی طرف رہنمائی کی گئی جو ہر مسلمان کے اندر عام طور پر اور جہاد کے موقع پر خاص طور پر ہونا چاہئیں ۔
(10) ان کی تعریف وتوصیف کرکے اور ان کی خوبیاں بیان کرکے ان کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے، کیونکہ اس سے جذبہ بیدار ہوتا ہے اور ہمت وجوش میں اضافہ ہوتا۔
سورہ توبہ میں غزوہ تبوک کے واقعات بیان کیے گئے ہیں:
پس اس میں اللہ ورسول کی مشرکین سے براءت وبیزاری کا اعلان اور اس پر مرتب ہونے والے احکام شرع کو بیان کیا گیا ہے، ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
(1) اللہ عزوجل کا فرمان عالی شان ہے:
﴿بَرَاءَةٌ مِنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ (1) فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ ﴾(2)(سورہ توبہ:1-2)
ترجمہ: بیزاری کا حکم سنانا ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے ان مشرکوں کو جن سے تمہارا معاہدہ تھا (اور وہ قائم نہ رہے) تو (اے مشرکو! اب صرف) چار مہینے زمین پر (آزادی سے) چلو پھرو اور جان رکھو کہ تم اللہ کو تھکا نہیں سکتے (اور اس کی گرفت سے بچ نہیں سکتے) اور یہ کہ اللہ کافروں کو رسوا کرنے والا ہے۔
چنانچہ ان آیتوں میں بتایا گیا کہ ان کے عہد کو توڑنے کے بعد اب چار مہینے بعد ان کے لیے کوئی عہد ومیثاق باقی نہیں رہا پس ان چار ماہ میں ان کے پاس توبہ کرنے کی فرصت ہے، پھر ارشاد ہوا:
﴿ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدْتُمْ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنْقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَى مُدَّتِهِمْ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ﴾(4)[سورہ توبہ: 4]
ترجمہ: مگر وہ مشرک جن سے تمہارہ معاہدہ تھا پھر انہوں نے تمہارے معاہدہ میں کچھ کمی نہیں کی اور تمہارے خلاف کسی کی مدد نہ کی، تو ان کا معاہدہ معینہ مدت تک پورا کرو، بے شک اللہ پرہیزگاروں کو پسند کرتا ہے۔
پس مشرکین سے اللہ ورسول کی اس براءت عامہ میں سے ان مشرکین کو مستثنی کیا گیا جو اپنے معاہدہ پر باقی رہے اور کوئی ایسا کام نہیں کیا جو معاہدہ کے خلاف ہو، چنانچہ نہ تو انہوں نے مسلمانوں کے حق میں کوئی کمی کی اور نہ ہی ان کے خلاف ان کے دشمن کی مدد کی، پس ان لوگوں کا معاہدہ اس کی مدت معینہ تک پورا کیا جائے گا چاہے وہ مدت چھوٹی ہو بڑی۔
(2) مذکورہ دونوں فریقوں میں سے اگر کوئی بھی امان مانگے تو اس کو امان دی جائے گی تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے (اور اسلام کے بارے میں جانے)، پس اسے اسلام میں داخل ہونے کا پورا حق وآزادی حاصل ہے، یا اسے اس کی امان کی جگہ یعنی اس کے شہر پہنچایا جائے، اور اس حکم میں مصلحت عامہ ہے تاکہ دشمنان اسلام بھی اسلام کی خوبیوں سے واقف ہوں، ان تینوں حقوق کو اللہ عزوجل نے مندرجہ ذیل آیت میں بیان فرمایا ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (سورہ توبہ: 6)
ترجمہ: اور اے محبوب! اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو، یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں۔
(3) اللہ رب العزت کے مندرجہ ذیل فرمان کی دونوں آیتوں کے سیاق کے مابین ربط رکھنا ضروری ہے:
﴿فَإِذَا انْسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدْتُمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ (5) وَإِنْ أَحَدٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّى يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَا يَعْلَمُونَ﴾ (6) (سورہ توبہ: 5-6)
ترجمہ: پھر جب حرمت والے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کردو اور انہیں پکڑو (قید کرو) اور گھیرو اور ہر جگہ ان کی تاک میں بیٹھو پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیں تو ان کی راہ چھوڑ دو، بے شک اللہ بہت بخشنے والا بڑا مہربان ہے، اور اے محبوب! اگر کوئی مشرک تم سے پناہ مانگے تو اسے پناہ دو تاکہ وہ اللہ کا کلام سنے پھر اسے اس کی امن کی جگہ پہنچا دو، یہ اس لیے کہ وہ نادان لوگ ہیں۔
پس پہلی آیت میں حکم عام ہے جو ان تمام مشرکین کے لیے ہے، اور دوسری میں اس بات کا بیان ہے کہ اگر مصلحت یہ تقاضا کرے کہ ان میں سے کچھ کے ساتھ جنگ نہ کی جائے بایں طور کہ وہ امان طلب کر لیں تو انہیں امان دینا ضروری ہے، اور ان کے کچھ مندرجہ ذیل شرعی حقوق ہیں:
1- انہیں اللہ کا کلام سنانا، دین اسلام کے بارے میں بتانا اور اس کی خوبیاں اور اس کی عظمت بیان کرنا۔
2- اسے اسلام لانے یا کفر پر باقی رہنے کی آزادی حاصل ہے۔
3- اسے اس کی امان کی جگہ یعنی جہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرے وہاں پہنچانے کا حق حاصل ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر وہ اسلام قبول نہ کرے اور نہ اس کے خلاف جنگ کرے تو اسے قتل کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔
(4) مشرکین سے بے زاری وبراءت کی حکمت کا بیان
ان سے بے زاری وبراءت کی مندرجہ ذیل وجوہات ہیں:
1- وہ اللہ (ورسول) پر ایمان نہ لائے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع نہ کی ۔
2- مسلمانوں کی قرابت ورشتہ داری کا بھی لحاظ نہ رکھا اور نہ ہی عہد وپیمان کی حرمت کو برقرار رکھا۔
3- مسلمانوں سے ان کی دائمی دلی عداوت ونفرت اگرچہ اس کے برعکس ظاہر کریں۔
4- اللہ ورسول کے ایمان پر دنیا اور اس کی لذتوں کو برتری دینا۔
5- وہ زمین میں فساد کا سبب ہیں۔
6- لوگوں کو اللہ کے دین میں داخل ہونے سے روکتے ہیں۔
7- ان کے کام میں کبھی کوئی بھلائی نہیں پائی جاتی، پس وہ باطل کی نصرت و حمایت کرتے ہیں اور حق اور اہل حق سے جنگ کرتے ہیں۔
اور اللہ رب العزت کا فرمان:﴿ فَإِنْ تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ وَنُفَصِّلُ الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْلَمُونَ ﴾ (یعنی پھر اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم رکھیں اور زکوٰة دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں، اور ہم آیتیں تفصیلی طور پر بیان کرتے ہیں جاننے والوں کے لیے۔) اس بات کی دلیل ہے کہ اگر وہ اسلام لے آئے تو وہ اپنی جانوں کو قتل سے بچا لیں گے، پس ان کا قتل یا ان سے جنگ نفس قتل یا تکلیف دینے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ اس وجہ سے ہے کہ ان کا کفر اسلام کے راستہ میں رکاوٹ بنا، پس اگر وہ رکاوٹ دور ہو جائے تو سبب قتل بھی دور ہو جائے گا۔
(5) ان اسلامی اخلاق وآداب کا بیان جن سے سبھی مسلمانوں کو عام طور پر اور دشمن سے مقابلہ کے وقت خاص طور پر آراستہ رہنا چاہیے، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
﴿أَلَا تُقَاتِلُونَ قَوْمًا نَكَثُوا أَيْمَانَهُمْ وَهَمُّوا بِإِخْرَاجِ الرَّسُولِ وَهُمْ بَدَءُوكُمْ أَوَّلَ مَرَّةٍ أَتَخْشَوْنَهُمْ فَاللَّهُ أَحَقُّ أَنْ تَخْشَوْهُ إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ﴾ (سورہ توبہ: 13)
ترجمہ: کیا اس قوم سے نہ لڑو گے جنہوں نے اپنی قسمیں توڑیں اور رسول کے نکالنے کا ارادہ کیا حالانکہ انہیں کی طرف سے (جنگ کی) پہل ہوئی، کیا تم ان سے ڈرتے ہو پس اللہ اس کا زیادہ مستحق ہے کہ اس سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔
لہذا اللہ کے دشمنوں سے جنگ کے معاملہ میں مسلمانوں کو حکم الہی کی تعمیل کرنی چاہیے اگرچہ وہ کتنے ہی طاقتور ہوں، پس خوف صرف اللہ عزوجل سے ہی ہونا چاہیے نہ کہ اس کے دشمنوں سے۔
(6) فرمان الہی:﴿ فَقَاتِلُوا أَئِمَّةَ الْكُفْرِ ﴾(سورہ توبہ: 12)
ترجمہ: تو کفر کے سرغنوں (علم برداروں) سے لڑو۔
کفر کے سرغنوں یعنی اس کے قائدین وسرادرں سے جنگ کرنے کو خاص طور پر بیان کیا گیا ہے؛ اس کی وجہ یہ ہے کہ باقی لوگ انہیں کی اتباع کرتے ہیں، اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ جو ان کی اتباع نہ کرے یعنی مسلمانوں سے جنگ میں ان کے ساتھ کسی بھی اعتبار سے شامل نہ ہو تو اس کے ساتھ جنگ نہ کی جائے۔
(7) کفار وغیر مسلموں کے مسجد میں جانے کی ممانعت وحرمت جو کہ مسجد حرام میں ان کے دخول کی ممانعت وحرمت سے سمجھا جاتا ہے۔
(8) مسلمانوں کی سابق فتح ونصرت کا تذکرہ کرکے ان کی ہمت افزائی کرنا، کیونکہ سورہ توبہ سن آٹھ ہجری میں نازل ہوئی، یعنی غزوہ تبوک اور دیگر غزوات کے بعد جن میں مسلمانوں کو اللہ کے فضل و کرم اور اس کی تائید ونصرت سے فتح وکامیابی نصیب ہوئی، چنانچہ اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
﴿لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللَّهُ فِي مَوَاطِنَ كَثِيرَةٍ ﴾(سورہ توبہ: 25)
ترجمہ: یقیناً اللہ نے بہت سی جگہوں پر تمہاری مدد کی ہے۔
(9) اہل کتاب سے جنگ کا حکم دیا اور اس کی وجوہات بیان فرمائیں۔
چنانچہ ارشاد ربانی ہے:
﴿قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ﴾ (سورہ توبہ: 29)
ترجمہ: جنگ کرو ان سے جو ایمان نہیں لاتے ہیں اللہ پر اور نہ قیامت پر، اور جس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا اس کو حرام نہیں مانتے ہیں، اور سچے دین کو نہیں اپناتے ہیں یعنی وہ جو کتاب دیے گئے (ان سے لڑتے اور جنگ کرتے رہو) جب تک اپنے ہاتھ سے جزیہ نہ دیں ذلیل ہو کر۔
اس آیت میں اللہ تعالی نے ان سے جزیہ لینے کو فرض قرار دیا ہے،پس یہ حکم عام ہے یعنی سارے مشرکوں کے لیے۔
(10) غزوہ تبوک کے واقعات کو بیان کیا گیا تاکہ مسلمان ان سے آئندہ پیش آنے والے واقعات میں نصیحتیں وعبرتیں حاصل کریں، لہذا اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا مَا لَكُمْ إِذَا قِيلَ لَكُمُ انْفِرُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ اثَّاقَلْتُمْ إِلَى الْأَرْضِ أَرَضِيتُمْ بِالْحَيَاةِ الدُّنْيَا مِنَ الْآخِرَةِ فَمَا مَتَاعُ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا فِي الْآخِرَةِ إِلَّا قَلِيلٌ﴾ (سورہ توبہ: 38)
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ جب تم سے کہا جائے کہ خدا کی راہ میں نکلو تو بوجھ کے مارے زمین پر بیٹھ جاتے ہو، کیا تم نے آخرت کے بدلے دنیا کی زندگی پسند کر لی؟ اور دنیا کی زندگی کا نفع تو آخرت کے مقابلہ میں بہت تھوڑا ہے۔
اور اس کے بعد والی دیگر آیات میں بھی یہی چیز بیان کی گئی۔
(11) منافقین کے موقفوں کی حقیقت بیان کی گئی، چنانچہ فرمایا:
﴿لَوْ كَانَ عَرَضًا قَرِيبًا وَسَفَرًا قَاصِدًا لَاتَّبَعُوكَ وَلَكِنْ بَعُدَتْ عَلَيْهِمُ الشُّقَّةُ وَسَيَحْلِفُونَ بِاللَّهِ لَوِ اسْتَطَعْنَا لَخَرَجْنَا مَعَكُمْ يُهْلِكُونَ أَنْفُسَهُمْ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ﴾ (سورہ توبہ: 42)
ترجمہ: اگر کوئی قریب (آسانی سے ملنے والا) مال یا متوسط سفر ہوتا تو وہ (منافقین) ضرور تمہارے ساتھ جاتے، مگر ان پر تو مشقت کا راستہ دور (بھاری) پڑ گیا، اور اب اللہ کی قسم کھائیں گے کہ ہم سے ہو سکتا تو ضرور ہم (بھی) تمہارے ساتھ چلتے، وہ اپنی جانو کو ہلاک کر رہے ہیں اور اللہ جانتا ہے کہ وہ بے شک ضرور جھوٹے ہیں۔
نیز اس کے بعد والی آیات میں بھی ان کی حقیقت کا انکشاف کیا گیا، لیکن ان سے جنگ کرنے کا حکم نہیں دیا گیا۔
(12) مشرکوں کے ساتھ معاملات سے متعلق شرعی احکام بیان کیے گئے، انہیں میں سے ایک یہ بھی ہے جو مندرجہ ذیل آیتوں میں بیان گیا:
﴿مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (113) وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَنْ مَوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ ﴾(سورہ توبہ: 113-114)
ترجمہ: نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہوں، جبکہ انہیں ظاہر ہو چکا کہ وہ دوزخی ہیں، اور ابراہیم کا اپنے باپ کی بخشش چاہنا وہ تو نہ تھا مگر ایک وعدے کی وجہ سے جو اس سے کرچکا تھا، پھر جب ابراہیم کو ظاہر ہو گیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بے زار ہو گیا، بے شک ابراہیم بہت آہیں کرنے والا بردبار ہے۔
(13) ان تین لوگوں کے قصہ کا تذکرہ جو کسی وجہ سے غزوہ تبوک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہ جا سکے، پس انہوں نے توبہ کی اور اللہ نے ان کی توبہ قبول فرمائی، چنانچہ ارشاد ہوا:
﴿وَعَلَى الثَّلَاثَةِ الَّذِينَ خُلِّفُوا حَتَّى إِذَا ضَاقَتْ عَلَيْهِمُ الْأَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَيْهِمْ أَنْفُسُهُمْ وَظَنُّوا أَنْ لَا مَلْجَأَ مِنَ اللَّهِ إِلَّا إِلَيْهِ ثُمَّ تَابَ عَلَيْهِمْ لِيَتُوبُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ﴾(سورہ توبہ: 118)
ترجمہ: اور اللہ نے ان تین شخصوں کی توبہ (بھی) قبول فرمائی جن کا معاملہ موخر کردیا گیا تھا، یہاں تک کہ جب زمین اپنی وسعت کے با وجود ان پر تنگ ہوگئی اور وہ اپنی جانوں سے تنگ آ گئے اور انہیں یقین ہوا کہ اللہ سے پناہ نہیں مگر اسی کے پاس پھر (اللہ نے) ان کی توبہ قبول کی کہ توبہ پر قائم رہیں، بے شک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
(14) اللہ پاک نے ان مسلمانوں کی دلجوئی فرمائی جو سختیاں برداشت کرتے ہوئے اللہ کی راہ میں نکلے اور ان کے دل اللہ ورسول کی اطاعت سے معمور ہیں، چنانچہ فرمایا گیا:
﴿مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُمْ مِنَ الْأَعْرَابِ أَنْ يَتَخَلَّفُوا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنْفُسِهِمْ عَنْ نَفْسِهِ ذَلِكَ بِأَنَّهُمْ لَا يُصِيبُهُمْ ظَمَأٌ وَلَا نَصَبٌ وَلَا مَخْمَصَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلَا يَطَئُونَ مَوْطِئًا يَغِيظُ الْكُفَّارَ وَلَا يَنَالُونَ مِنْ عَدُوٍّ نَيْلًا إِلَّا كُتِبَ لَهُمْ بِهِ عَمَلٌ صَالِحٌ إِنَّ اللَّهَ لَا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ ﴾(سورہ توبہ: 120)
ترجمہ:مدینہ والوں اور ان کے گرد دیہات والوں کو لائق نہ تھا کہ اللہ کے رسول کے ساتھ نہ جاتے اور نہ یہ کہ ان کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کی فکر کریں، یہ اس لیے کہ انہیں جو پیاس یا تکلیف یا بھوک اللہ کی راہ میں پہنچتی ہے اور جہاں ایسی جگہ قدم رکھتے ہیں جو کافروں کو غصہ دلائے اور جو کچھ کسی دشمن کا بگاڑتے ہیں اس سب کے بدلے ان کے لیے نیک عمل لکھا جاتا ہے، بے شک اللہ نیکوں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔
چنانچہ یہ اس شخص کی سخت عقوبت کو بتاتی ہے جو حاکم کے ساتھ جہاد کے لیے جانے یا اس کی بنا اجازت جنگ کرنے میں اس کی اطاعت وفرمانبرداری نہ کرے۔
(15) جہاد کے بعض آداب ذکر فرمائے، چنانچہ ارشاد فرمایا:
﴿وَمَا كَانَ الْمُؤْمِنُونَ لِيَنْفِرُوا كَافَّةً فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنْذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ لَعَلَّهُمْ يَحْذَرُونَ ﴾(سورہ توبہ: 122)
ترجمہ: اور مسلمانوں سے یہ تو ہو نہیں سکتا کہ سب کے سب (اللہ کی راہ میں) نکلیں تو کیوں نہ ہو کہ ان کے ہر گروہ میں سے ایک جماعت نکلے تاکہ دین کی سمجھ حاصل کریں اور واپس آکر اپنی قوم کو (اللہ کے عذاب سے) ڈرائیں تاکہ وہ (گناہوں سے) بچیں۔
پس جہاد فرض کفایہ ہے کہ اسے بعض لوگ انجام دیں اور باقی لوگ امت کے دیگر اندرونی معاملات ومصالح سنبھالیں۔
بشمول سورہ ممتحنہ تینوں سورتوں کے احکام کو یکجا کرنے کے بعد کفار سے جنگ کرنے کا حکم شرعی مندرجہ ذیل صورتوں میں سامنے آتا ہے:
(1) جنگ پر آمادہ کفار کے ساتھ ہی جنگ کی جائے نہ کہ ان کفار کے ساتھ جو صلح وامان چاہتے ہوں۔
(2) جس کے ساتھ عہد وپیمان ہو تو اسے پورا کرنا ضروری ہے۔
اور یہ حکم ان تمام غیر مسلموں پر منطبق ہوتا ہے جو اسلامی ممالک میں عہد لے کر جسے آج کے دور میں "ورک پرمٹ یا کام کرنے کی اجازت" کہا جاتا ہے کام کرتے ہیں یا جنہیں حاکم نے امان دے دی ہو، پس جو بھی ان کے ساتھ ظلم وزیادتی کرے گا وہ حاکم کے انہیں دیے ہوئے عہد وپیمان کو توڑے گا اور اللہ ورسول کی نافرمانی کرے گا، لیکن افسوس صد افسوس! جیسا کہ ہم نے پہلے عرض کیا کہ آج کچھ جاہل لوگ جو اپنے آپ کو مسلمان کہلاتے ہیں وہ اس حقیقت سے بڑی دور بھٹکے ہوئے ہیں۔