Search
غير مسلموں سے شادی کرنا
مسلمان عورت کا غیر مسلم مرد سے نکاح جائز نہیں ہے چاہے وہ اہل کتاب یعنی یہودی یا نصرانی ہو یا کوئی اور ہے، کیونکہ اللہ عزوجل قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے:
﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ ۖ اللَّهُ أَعْلَمُ بِإِيمَانِهِنَّ ۖ فَإِنْ عَلِمْتُمُوهُنَّ مُؤْمِنَاتٍ فَلَا تَرْجِعُوهُنَّ إِلَى الْكُفَّارِ ۖ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَلَا هُمْ يَحِلُّونَ لَهُنَّ ۖ وَآتُوهُم مَّا أَنفَقُوا ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ أَن تَنكِحُوهُنَّ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ۚ وَلَا تُمْسِكُوا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَاسْأَلُوا مَا أَنفَقْتُمْ وَلْيَسْأَلُوا مَا أَنفَقُوا ۚ ذَٰلِكُمْ حُكْمُ اللَّهِ ۖ يَحْكُمُ بَيْنَكُمْ ۚ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴾(سورہ ممتحنہ: 10)
ترجمہ: اے ایمان والو جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں ہجرت کرکے آئیں تو ان کو آزما لیا کرو، اللہ ان کے ایمان کو بہتر جانتا ہے، پھر اگر تمہیں ایمان والیاں معلوم ہوں تو انہیں کافروں کو واپس نہ دو، نہ یہ انہیں حلال، نہ وہ انہیں حلال، اور ان کے کافر شوہروں کو دے دو جو ان کا خرچ ہوا، اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان سے نکاح کرلو جبکہ ان کے مہر انہیں دو، اور کافرنیوں کے نکاح پر جمے نہ رہو، اور مانگ لو جو تمہارا خرچ ہوا اور کافر مانگ لیں جو انہوں نے خرچ کیا، یہ اللہ کا حکم ہے، وہ تم میں فیصلہ فرماتا ہے، اور اللہ بہت جاننے والا حکمت والا ہے۔
نیز فرماتا ہے:
﴿وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ وَلَأَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكَةٍ وَلَوْ أَعْجَبَتْكُمْ ۗ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا ۚ وَلَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَيْرٌ مِّن مُّشْرِكٍ وَلَوْ أَعْجَبَكُمْ ۗ أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ۖ وَاللَّهُ يَدْعُو إِلَى الْجَنَّةِ وَالْمَغْفِرَةِ بِإِذْنِهِ ۖ وَيُبَيِّنُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَذَكَّرُونَ ﴾(سورہ بقرہ: 221)
ترجمہ: اور شرک والی عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں، اور بیشک مسلمان لونڈی (باندی) مشرکہ سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتی ہو، اور (مسلمان عورتیں) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لائیں، اور بے شک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ تمہیں بھاتا ہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔
ابن سعدی کا قول ہے: اللہ تعالی فرماتا ہے:﴿ وَلَا تُنكِحُوا الْمُشْرِكِينَ حَتَّىٰ يُؤْمِنُوا﴾ (یعنی: اور مسلمان عورتیں مشرکوں کے نکاح میں نہ دو) یہ عام ہے اس میں کوئی تخصیص نہیں ہے، اس کے بعد مسلمان مرد یا مسلمان عورت کا اس کے مذہب مخالف کے ساتھ نکاح حرام ہونے کی حکمت بیان فرمائی، چنانچہ ارشاد ہوا: ﴿أُولَٰئِكَ يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ ﴾یعنی وہ (مشرکین تمہیں) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں) اپنے اقوال، افعال اور احوال کے ذریعہ سے، لہذا ان سے اختلاط میں بڑا خطرہ ہے، اور یہ کوئی دنیوی خطرہ نہیں ہے بلکہ دائمی شقاوت کا خطرہ ہے۔
نیز آیت میں حرمت نکاح کی علت سے ہر مشرک وبدعتی سے اختلاط کی ممانعت کا بھی درس ملتا ہے، کیونکہ جب ان سے نکاح جائز نہیں ہے - جبکہ اس میں بہت سی مصلحتیں وفوائد ہیں- تو صرف اختلاط تو بدرجہ اولی جائز نہ ہوگا، خاص کر وہ اختلاط جس میں غیر مسلم کو مسلمان پر بر تری وفوقیت حاصل ہو جیسے خدمت وغیرہ کے معاملہ میں۔ (کتاب: تيسير الكريم الرحمن في تفسير كلام المنان)
ابن سعدی کے قول "خاص کر وہ اختلاط جس میں غیر مسلم کو مسلمان پر بر تری وفوقیت حاصل ہو جیسے خدمت وغیرہ کے معاملہ میں۔" پر ہم آگے مسلمان کے غیر مسلم کے ساتھ کام کرنے کے حکم میں مزید کلام کریں گے۔