Search
اسلام ہمیں ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کا کیوں حکم دیتا ہے جبکہ دوسری طرف ہمیں ان کی تقلید و مشابہت اختیار کرنے سے بھی روکتا ہے؟
(1) اچھا سلوک کرنے کا حکم اس لیے ہے کہ انسان کی فطرت ہے کہ جو اس کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے وہ اس سے محبت کرتا ہے، تو ہو سکتا ہے کہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرنے سے ان کے دلوں میں مسلمانوں کے لیے محبت پیدا ہو جائے اور وہ اسلام میں داخل ہو جائیں۔
(2) کیونکہ اچھا سلوک کرنا ہمارے روا دار دین حنیف یعنی مذہب اسلام کا شعار ہے، لہذا ضروری ہے کہ اس کے مبادی واصول تمام لوگوں کے سامنے پیش کیے جائیں یہاں تک دشمنوں پر بھی؛ تاکہ وہ اس دین اسلام کی حقیقت سے آشنا ہوں، چنانچہ قرآن مجید میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے:
﴿لَّا يَنْهَاكُمُ اللَّهُ عَنِ الَّذِينَ لَمْ يُقَاتِلُوكُمْ فِي الدِّينِ وَلَمْ يُخْرِجُوكُم مِّن دِيَارِكُمْ أَن تَبَرُّوهُمْ وَتُقْسِطُوا إِلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُقْسِطِينَ ﴾(سورہ ممتحنہ: 8)
ترجمہ: اللہ تمہیں ان سے منع نہیں کرتا جو تم سے دین میں نہ لڑے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نہ نکالا کہ ان کے ساتھ بھلائی کرو اور ان سے انصاف کا برتاؤ برتو، بے شک انصاف کرنے والوں کو اللہ محبوب رکھتا ہے۔
(3) اور رہی ان سے مشابہت اختیار کرنے کی ممانعت جو کہ مقصود شرع ہے تو اس کی چند حکمتیں ہیں، ان میں سے کچھ مندرجہ ذیل ہیں:
اول: ان سے مشابہت رکھنا ظاہر میں ان کا شریک ہونا ہے، جس میں گویا کہ دشمنوں سے ایک قسم کی محبت کرنا ہے جو کہ شرعاً ممنوع ہے، جیسا کہ سورہ ممتحنہ میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
﴿ إِن يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُم بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ﴾ (سورہ ممتحنہ:2)
ترجمہ: اگر (وہ کفار) تمہیں پا جائیں تو تمہارے دشمن ہوں گے اور تمہاری طرف اپنے ہاتھ اور اپنی زبانیں برائی کے ساتھ دراز کریں گے اور ان کی آرزو ہے کہ کسی طرح تم کافر ہوجاؤ۔
دوم: ان سے مشابہت رکھنا احساسات میں باطنی تعلق، اخلاق میں ان کے اثر ورسوخ، سلوک وطرز زندگی میں ان کی نقل اور افعال میں ان کی پیروی کا باعث ہے۔
سوم: ان سے مشابہت کبھی کبھار ایسے امور میں ان کی نقل وتقلید کا باعث ہو جاتی ہے جو عقیدہ کو فاسد کرنے والے ہوتے ہیں، اور یہ دنیوی فساد انسان کو دینی فساد تک کھینچ لے جاتا ہے۔
چہارم: بہت سی حدیثوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے غیر مسلموں کی مخالفت برتنے کا حکم وارد ہوا ہے جیسے کہ عاشوراء کے روزہ، مونچھیں کاٹنے، اور داڑھی بڑھانے کے بارے میں، چنانچہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ایک حدیث میں ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:“مشرکوں کی مخالفت کرو، مونچھیں کاٹو اور داڑھیاں بڑھاؤ۔” اسی طرح سفیدی دور کرنے کے معاملے میں، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: “بڑھاپے کا رنگ (یعنی سفیدی کو خضاب لگا کر) بدلو اور یہودیوں کی مشابہت اختیار نہ کرو”۔ ترمذی۔
پنجم: ان سے مشابہت اختیار کرنے اور ان کی پیروی کرنے سے انہیں خوشی ملے گی، اپنے طرز عمل وزندگی پر وہ فخر کریں اور سمجھیں گے کہ وہ مسلمانوں سے افضل واعلی ہیں، جس سے انہیں لگے گا کہ ان کے دین سے بہتر کوئی دین نہیں ہے، نتیجہ یہ ہوگا کہ وہ دین اسلام سے خود بھی رکیں گے اور دوسروں کو بھی روکیں گے، نیز یاد رہے کہ آج کل یہ جو لوگوں کے بیچ کھانے، پینے، پہننے، (اٹھنے، بیٹھنے چلنے، پھرنے، سونے، جاگنے) وغیرہ کی جو کچھ گندی عادتیں ایجاد کر رہے ہیں اور انہیں پھیلا رہے ہیں جنہیں ہمارے مسلم نوجوان بڑے فخر سے اپنا رہے ہیں یہ سب ان کی گھٹیا افکار اور گندی خواہشات کا نتیجہ ہے اور انہیں دونوں چیزوں پر ان کے فاسد عقیدہ کی بنیاد ہے، ایسے ہی لوگوں کے بارے میں قرآن مجید میں ارشاد ہوا ہے:﴿ وَإِذَا قِيلَ لَهُمْ لَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ﴾ (سورہ بقرہ:11) ترجمہ: اور جب ان سے کہا جائے زمین میں فساد مت کرو تو کہتے ہیں ہم تو سنوارنے والے(اصلاح کرنے والے) ہیں۔ لہذا ان کا عقیدہ اور ان کے افعال ماخذ و مقصد میں دونوں میں یکساں ہیں۔