1. مضامين
  2. رسول اللہ ﷺ کا غير مسلموں کی ساتھ سلوک
  3. غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنا اور ان کی تقلید کرنا

غیر مسلموں سے مشابہت اختیار کرنا اور ان کی تقلید کرنا

661 2021/02/04 2024/12/22

ان سے مشابہت کبھی اقوال میں ہوتی ہے، کبھی افعال یا اعمال میں اور کبھی ہیئت وصورت میں، اور ان کے اعمال تین طرح کے ہوتے ہیں:

1- وہ عمل جو ان کے مذہب میں جائزہو لیکن اسلام نے اس سے منع کر دیا ہو:

 جیسے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا، چنانچہ اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:

﴿قَدْ نَرَىٰ تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاءِ ۖ فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا ۚ فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ۗ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ﴾ (سورہ بقرہ: 144)

ترجمہ: ہم دیکھ رہے ہیں بار بار تمہارا آسمان کی طرف منہ کرنا، تو ضرور ہم تمہیں پھیر دیں گے اس قبلہ کی طرف جس میں تمہاری خوشی ہے، ابھی اپنا منہ پھیر دو مسجد حرام کی طرف اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں بھی ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو، اور وہ جنہیں کتاب ملی ہے ضرور جانتے کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے اور اللہ ان کے کوتکوں (اعمال) سے بےخبر نہیں ہے۔

2-  وہ عمل جو نہ ان کی شریعت میں ہو اور نہ ہماری شریعت میں بلکہ خود انہوں نے ایجاد کیا ہو:

جیسے کہ آج کے دور زمانہ ان کے درمیان منتشر تہوار وعیدیں جیسے کے مدرز ڈے، نیا سال وغیرہ، اسی طرح وہ جشن جو ان کی تقلید کرتے ہوئے بعض مسلمان بھی مناتے ہیں جیسے کہ جنم دن منانا۔  (یاد رہے کہ جنم دن منانا یا نیا سال منانا جو کہ حضرت عیسی علیہ السلام کی ولادت کا دن ہے جیسا کہ عیسائی کہتے ہیں، جائز ہے، اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ یہ اللہ عزوجل کی دی ہوئی نعمت کے دن کو یاد کرنا اور اس کی نعمت پر شکر ادا کرنا ہے، چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنا یوم پیدائش مناتے تھے کہ آپ پیر کے دن روزہ رکھتے تھے اور جب اس بارے میں آپ سے پوچھا گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن روزہ کیوں رکھتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ میں اس دن پیدا ہوا تھا، لہذا ثابت ہوا کہ اللہ عزوجل کے شکر کے طور پر یوم پیدائش منانا جائز ہے، لیکن  یہ بھی یاد رہے کہ فضول خرچی نہ ہونے پائے، اسی طرح نیے سال پر مبارکباد دینا بھی جائز ہے مثال کے طور کہے کہ اللہ اس سال کو تمہارے لیے خیر وبرکت والا سال بنائے، اللہ پاک تمہاری زندگی میں خوشیاں لائے، وغیرہ دعائیہ کلمات کے ذریعہ مبارکباد پیش کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، مزید وضاحت کے لیے دار الإفتاء مصریہ کا فتوی دیکھیں۔ مترجم)

اور جو کافروں کے کچھ مداحین اور کچھ جاہل لوگ یہ کہتے ہیں کہ کافروں کے اندر کچھ اچھی خوبیاں وصفات ہوتی ہیں جیسے ایمانداری، وفاداری اور امانت داری، تو اگرچہ یہ چیزیں کچھ کافروں میں پائی جاتی ہیں، اور کچھ غافل مسلمان ان سے محروم رہتے ہیں، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ عام طور پر کافر مسلمان سے زیادہ پاکیزہ ہیں اور وہ ان سے بہتر ہیں، اور نہ ہی یہ مطلب ہے کہ کافروں کے عقائد، نظریات، اخلاق اور عادات واطوار درست اورصحیح ہیں، پس اگر ان میں سے کچھ میں اس طرح کی اچھی انسانی خوبیاں موجود ہوں تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ وہ سب اس طرح کے ہوتے ہیں، اور نہ ہی یہ مطلب ہے ان کے دل صاف ستھرے اور بہت اچھے ہوتے ہیں، اوربھلا ان کے دل کیسے صاف ستھرے اور اچھے ہو سکتے ہیں جبکہ وہ ایمان سے عاری اور خالی ہیں؟! جبکہ ان اچھے اخلاق کی بنیاد اسلام ہی ہے، جنہیں اپنانے کا مسلمانوں کو حکم دیا دیا گیا ہے، اس کے علاوہ ہم یہ بھی نہیں مانتے کہ یہ اچھے اخلاق کافروں میں در حقیقت پائے جاتے ہیں جیسا کہ ان مداح سمجھتے ہیں، بلکہ صرف کبھی کبھی اور وہ بھی  کچھ ہی افراد میں ایسے پائے اخلاق پائے جاتے ہیں، ورنہ حقیقت اور مشاہدہ بھی یہی ہے کہ عام طور پر کافروں کے اخلاق برے اور گندے ہوتے ہیں، حسد وکینہ، عداوت ودشمنی، دھوکہ دہی وخیانت، بد عنوانی، جھوٹ فحاشی اور دیگر اخلاقی بدعنوانی ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے جس سے وہ خود بھی برباد ہوتے ہیں اور اپنے دانشوروں اور صلاح کاروں کو بھی پریشان کیے رہتے ہیں۔

لہذا مسلمانوں کو چاہیے کہ ان کی شخصیت، ان کے عمدہ اخلاق، ان کی اچھی عادتیں اور ان کی معزز زبان سب سے نمایا ہو، اور یہ سب شریعت اسلامیہ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ اور سلف صالح کی سیرت طیبہ سے لیا جائے، اور آج جو کافروں کی عادات واطوار، رسم ورواج، لباس اور ان کا طرز زندگی ہے اس سے جہاں تک ہو سکے مسلمان کو بچنا چاہیے۔ ابن تیمیہ، اقتضائے صراط مستقیم، (51/1)

ان سے مشابہت نہ رکھنے اور ان کی تقلید نہ کرنے کی کچھ مثالیں مندرجہ ذیل ہیں: داڑھی بڑھانا، مونچھیں منڈانا (یا بہت چھوٹی رکھنا)، یہودیوں کی مخالفت میں بالوں کو  سفید ی(کالے رنگ کے علاوہ دوسرے رنگ کی مہندی وخضاب وغیرہ لگا کر) تبدیل کرنا، چپلوں یا جوتے میں نماز نہ پڑھنا، سحری تاخیر سے کرنا اور افطاری میں جلدی کرنا، طلوع یا غروب آفتاب کے وقت نماز نہ پڑھنا۔

ان کے کسی بھی شعار کی تقلید کرنا جائز نہیں ہے چاہے وہ دین معاملات ہوں ہو جیسے کہ گرجا گھروں میں ان کی رسمیں، یا مذہبی تہواروں کے جشن وتقریب ہوں جیسے کہ عیسی علیہ السلام کا یوم پیدائش کا جشن یا پھر لباس وہیئت یا انعقاد تقریب کے لحاظ سے ان سے متعلقہ عادتیں ہوں جیسے کہ یوم پیدائش یا شادی کی سالگرہ وغیرہ منانا، (نیے سال کی مبارک باد دینے اور یوم پیدائش منانے سے متعلق حکم ہمنے پہلے بیان کر دیا ہے کہ یہ جائز ہیں ان میں کوئی قباحت نہیں ہے، اسی طرح اللہ عزوجل کی نعمت کے شکر کے لیے شادی کی سالگرہ منانا بھی جائز ہے، کہ ایسے دن میں اللہ نے اسے بیوی کی نعمت سے نوازا اور اسی کے صدقے میں اسے اولاد ملی وغیرہ، لہذا اللہ کی ان نعمتوں کے دن کو یاد کرکے اس کا شکر ادا کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے جبکہ اس میں کوئی فضول خرچی نہ ہو۔ واللہ اعلم) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: “جس نے جس قوم کی مشابہت اختیار کی وہ اسی سے ہے۔” اسے امام داود نے روایت کیا ہے۔ (احكام التعامل مع غير المسلمين لابن ماجد)

پچھلا مضمون اگلا مضمون
" اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی حمایت " ویب سائٹIt's a beautiful day